گوانتانامو سے رہا ہونے والے چھ قیدی یوراگوے روانہ

فائل

وہ گوانتانامو بے کے پہلے قیدی ہیں جنھیں جنوبی امریکی براعظم کی طرف بھیجا جا رہا ہے۔ اُن کی رہائی کے بعد، اب گوانتانامو میں قیدیوں کی مجموعی تعداد 136 رہ گئی ہے

امریکہ نے کیوبا میں قائم گوانتانامو بے کے امریکی فوجی قیدخانے میں بند چھ افراد کو یوراگوے بھیج دیا ہے۔

پینٹاگان کا کہنا ہے کہ اِن میں چار شامی، ایک تیونس کا شہری اور ایک فلسطینی ہے۔ اُنھیں یوراگوے میں مہاجرین کی حیثیت سے سکونت دی جائے گی۔ رہا ہونے والا 43 برس کا ایک شامی، جن کا نام جہاد دیاب ہے، بھوک ہڑتال رہ چکے ہیں۔ اُنھوں نے ایک امریکی عدالت سے درخواست کر رکھی تھی کہ قید کے اہل کاروں کو اُنھیں زبردستی کھانا کھلانے سے روکا جائے۔

تمام کے تمام چھ قیدیوں کو شدت پسندی کے الزام پر اور القاعدہ سے وابستگی کے شبہے میں قید کیا گیا تھا۔ تاہم، اُن پر کبھی الزام عائد نہیں کیا گیا۔

ابتدائی طور پر تین ماہ قبل، اُن کےرہائی کے احکامات جاری کیے گئے۔ تاہم، نوکرشاہی کے تاخیری حربوں اور گذشتہ ماہ یوراگوے میں ہونے والے صدارتی انتخابات پر سیاسی تشویش کے باعث، اُن کی منتقلی کے معاملے کو مؤخر کیا گیا۔

وہ گوانتانامو بے کے پہلے قیدی ہیں جنھیں جنوبی امریکی براعظم کی طرف بھیجا جا رہا ہے۔ اُن کی رہائی کے بعد، اب گوانتانامو میں قیدیوں کی مجموعی تعداد 136 رہ گئی ہے۔

اُن کے طبی معائنے کے لیے، اُنھیں مونتےودو کے ایک فوجی اسپتال لےجایا گیا، اس توقع کے ساتھ کہ اُس کے بعد اُنھیں آزاد کر دیا جائے گا۔

رہا کیے جانے والے شام کے دیگر قیدیوں کے نام احمد احجام، علی حسین شعبان اور عمر ابو فراج ہیں؛ فلسطینی کا نام محمد تہن متان، جب کہ تیونس کے شہری کا نام عبد العرج ہے۔

اس سال، 19 قیدیوں کو گوانتانامو سے باہر منتقل کیا گیا، اور اہل کاروں کا کہنا ہے کہ زیر حراست مزید افراد کو اِس سال کے اواخر تک رہائی مل جائے گی۔ گوانتانامو میں اُن مزید 67 قیدیوں کی رہائی کے احکامات صادر ہو چکے ہیں۔ لیکن، اذیت کے خوف، عدم سلامتی یا کسی اور سبب کے باعث وہ اپنے وطن واپس نہیں جا سکتے۔


گوانتانامو میں باقی ماندہ قیدیوں کا سب سے بڑا گروہ، نصف سے زائد، یمنی قیدی ہیں۔ تاہم، امریکہ اس بات کا خواہاں نہیں کہ اُنھیں یمن واپس بھیجا جائے، کیونکہ وہاں سلامتی کی صورت حال دگرگوں ہے۔

یہ حراستی مرکز جنوری 2002ء میں کھولا گیا، جس سے چار ماہ قبل القاعدہ نے امریکہ پر دہشت گرد حملے کیے، جن میں تقریبا ً 3000 افراد ہلاک ہوئے۔

صدر براک اوباما نے تقریباً چھ برس قبل عنانِ حکومت سنبھالا، جب اُنھوں نے اس قیدخانے کو بند کرنے کا وعدہ کیا تھا، جس کے لیے اُنھوں نے دنیا بھر میں امریکی ساکھ مسخ ہونے کی توجیہ پیش کی تھی۔

تاہم، وہ ایسا نہیں کر پائے، جس کا سبب کسی حد تک یہ ہے کہ امریکی کانگریس کی طرف سے ڈالے گئے رخنے ہیں۔

امریکہ کو متبادل ملک میسر آنے میں دقت درپیش رہی ہے، جو اِن قیدیوں کو قبول کریں۔