بھارت کے شہر وارانسی (بنارس) کی گیان واپی مسجد کا تنازع ایک بار پھر ذرائع ابلاغ کی سرخیوں میں ہے۔ وارانسی کی ضلعی عدالت نے 21 جولائی کو محکمۂ آثارِ قدیمہ کو ہدایت کی تھی کہ وہ 24 جولائی سے مسجد کا سروے اور سائنسی تحقیق کرے جب کہ ضرورت پڑنے پر کھدائی کی بھی اجازت دی گئی تھی۔ اس حکم کو الہ آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا جس پر چیف جسٹس پرتینکر دیواکر کا بینچ سماعت کر رہا ہے۔
مسلم فریق نے 25 جولائی کو دائر درخواست میں کہا کہ اگر ہندو فریق کے دعوے کے مطابق سروے کیا گیا اور کھدائی ہوئی تو مسجد کا پورا احاطہ تباہ ہو جائے گا جب کہ اس سے ملک میں کشیدگی کے خدشات کا بھی اظہار کیا گیا۔
ضلعی عدالت نے مسجد کے تینوں گنبدوں کے نیچے ’گراؤنڈ پینیٹریٹنگ سروے‘ کا بھی حکم دیا تاکہ اس بات کا پتا لگایا جا سکے کہ جس جگہ مسجد تعمیر کی گئی وہاں پہلے کوئی مندر تھا یا نہیں۔ اس نے چار اگست کو رپورٹ عدالت میں جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔
محکمۂ آثارِ قدیمہ کے ماہرین کی ایک ٹیم نے 24 جولائی کی صبح سروے کا آغاز کیا۔ ’انجمن انتظامیہ مساجد کمیٹی‘ نے اس حکم کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی سربراہی والے تین رکنی بینچ نے درخواست پر سماعت کرتے ہوئے سروے 26 جولائی کی شام پانچ بجے تک روک دیا ہے اور مسلم فریق کو الہ آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے اسے ’سانس لینے کی مہلت‘ مل جائے گی۔
الہ آباد ہائی کورٹ میں مسلم فریق کی جانب سے دلائل دیتے ہوئے سینئر وکیل ایس ایف اے نقوی نے کہا کہ محکمۂ آثار قدیمہ اس معاملے میں نہ تو فریق ہے اور نہ ہی اسے نوٹس دیا گیا تھا۔ اس کے باوجود عدالت نے اسے سروے کا حکم دیا۔
ہندو فریق کی جانب سے ایڈووکیٹ ہری شنکر جین نے کہا کہ سولیسیٹر جنرل تشار مہتہ نے سپریم کورٹ میں یقین دہانی کرائی ہے کہ سروے کے دوران نہ تو کوئی انہدام ہوگا اور نہ ہی عمارت کو کوئی نقصان پہنچے گا۔
اس پر ایس ایف اے نقوی نے کہا کہ یہ یقین دہانی ایک ہفتے کے ابتدائی سروے کے تعلق سے ہے۔ اس کے بعد وہ کھدائی کریں گے اور پھر بڑا تنازع پیدا ہو جائے گا۔
عدالتی کارروائی کیوں ہو رہی ہے؟
خیال رہے کہ اگست 2021 میں پانچ ہندو خواتین نے وارانسی کی سول کورٹ میں درخواست دائر کی تھی کہ گیانی واپی مسجد کی مغربی دیوار پر واقع مبینہ گوری شرنگار کی مورتی کی روزانہ پوجا کی اجازت دی جائے۔ اس سے قبل سال میں صرف ایک بار وہاں پوجا کی جاتی تھی۔
SEE ALSO: گیان واپی مسجد تنازع: مبینہ شیولنگ کے سائنسی تجزیے کی استدعا مستردعدالت نے اس اپیل پر سماعت کرتے ہوئے آٹھ اپریل 2022 کو مسجد کے ویڈیوگرافک سروے کا حکم دیا۔
مسلم فریق نے اس کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا لیکن اس نے سماعت کرنے سے انکار کر دیا۔ البتہ اس نے عدالت کو مسجد کو کوئی نقصان نہ پہنچنے کو یقینی بنانے کی ہدایت کی جب کہ اس معاملے کو سول کورٹ سے ڈسٹرکٹ کورٹ منتقل کر دیا گیا۔
عدالت کے حکم پر مسجد کا ویڈیو گرافک سروے کیا گیا اور اس کی رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ مسجد کے حوض میں شیو لنگ دریافت ہوا ہے۔
مسلم فریق کا کہنا ہے کہ جسے شیو لنگ کہا جا رہا ہے وہ دراصل حوض کا فوارہ ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم سے حوض کو ڈھانپ کر سیل بند کر دیا گیا ہے۔
درخواست گزار لکشمی دیوی اور دیگر نے ضلعی عدالت سے ابتدائی سروے کے بعد سائنٹفک سروے اور مبینہ شیو لنگ کی کاربن ڈیٹنگ کرانے کی گزارش کی۔ عدالت نے یہ درخواست 14 اکتوبر 2022 کو مسترد کر دی تھی۔
اس کے بعد الہ آباد ہائی کورٹ سے یہی اپیل کی گئی جس نے رواں سال کے 16 جولائی کو سائنٹفک سروے او رکھدائی کا حکم دیا۔ ضلعی عدالت کا حالیہ فیصلہ اس حکم پر عمل درآمد کے لیے تھا۔
ہندو تنظیموں کا دعویٰ
ہندو تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ سترہویں صدی میں مغل حکمراں اورنگ زیب کے دور حکومت میں وارانسی کے کاشی وشو ناتھ مندر کو توڑ کر اس کے مقام پر گیان واپی مسجد کی تعمیر کی گئی تھی جب کہ مسلم فریق کا استدلال ہے کہ گیان واپی مسجد کی تعمیر وقف کی زمین پر ہوئی ہے۔
SEE ALSO: گیان واپی مسجد تنازع: مسلمانوں کی مقامی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے کارروائی کی استدعابھارت میں شدت پسند ہندو تنظیمیں کئی مساجد کے حوالے سےدعویٰ کرتی ہیں کہ جہاں یہ تعمیر ہیں وہاں دیگر تعمیرات موجود تھیں۔ ان تنظیموں کا الزام ہے کہ یہ مساجد مندروں کو منہدم کرکے تعمیر کی گئی تھیں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے انتخابی ایجنڈے میں ایودھیا کی بابری مسجد، وارانسی کی گیان واپی مسجد اورمتھرا کی شاہی عیدگاہ شامل رہی ہیں۔
بھارت کا 1991 کا عبادت گاہوں کا قانون
سپریم کورٹ میں دائر مسلم فریق کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ گیان واپی مسجد کی مغربی دیوار پر پوجا کی اجازت طلب کرنے کا اصل مقصد مسجد کی ہیئت کو تبدیل کرنا ہے۔ جب کہ ’پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991‘ کے تحت 15 اگست 1947 سے قبل موجود کسی بھی عبادت گاہ کی ہیئت کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
یاد رہے کہ 1991 میں اس وقت کی نرسمہاراؤ کی حکومت نے بابری مسجد کے قضیے کو ہمیشہ کے لیے حل کرنے کے مقصد سے ایک قانون وضع کیا تھا جس میں کہا گیا ہے کہ 15 اگست 1947 کو جو عبادت گاہ جس شکل میں تھی وہ اب اسی شکل میں رہے گی۔
اس قانون کے مطابق اگر 15 اگست1947 کے پہلے سے موجود کسی عبادت گاہ کے بارے میں کسی عدالت میں کوئی مقدمہ ہے تو وہ کالعدم ہو گیا اور اب اگر کوئی بھی شخص ایسی کسی عبادت گاہ کے بارے میں کسی عدالت میں کوئی مقدمہ دائر کرنا چاہے گا تو وہ دائر نہیں ہوگا۔ البتہ بابری مسجد کو اس سے مستثنیٰ رکھا گیا تھا۔
SEE ALSO: راجہ تومر کے مبینہ وارث کا قطب مینار پر ملکیت کا دعویٰگزشتہ سال 20 مئی کو سپریم کورٹ میں مسلم فریق کی درخواست پر سماعت کے دوران سینئر وکیل حذیفہ احمدی نے اس قانون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وارانسی عدالت کا حکم اس قانون کے خلاف ہے۔ جس پر جسٹس چندر چوڑ نے کہا کہ 1991 کا قانون کسی عبادت گاہ کے بارے میں تحقیقات سے نہیں روکتا۔
’یہ بابری مسجد کا پارٹ ٹو ہے‘
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل پرشانت بھوشن کا کہنا ہے کہ وارانسی کی ضلعی عدالت کی جانب سے مسجد کے سروے کا حکم دینا عبادت گاہوں کے قانون کی خلاف ورزی ہے ۔
انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ گیان واپی مسجد کے سلسلے میں جو عدالتی عمل چل رہا ہے وہ افسوس ناک ہے۔ ان کے بقول یہ بابری مسجد کا پارٹ ٹو ہے۔
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل زیڈ کے فیضان کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ جب تک 1991 کا قانون موجود ہے، کسی بھی تاریخی عبادت گاہ پر کوئی دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے سپریم کورٹ کے حوالے سے کہا کہ اسے چاہیے کہ از خود نوٹس لے کر اس قسم کی درخواستوں پر پابندی عائد کر دے اور یہ حکم صادر کرے کہ جب تک مذکورہ قانون موجود ہے کسی بھی تاریخی عبادت گاہ کے سلسلے میں کسی بھی عدالت میں کوئی اپیل دائر نہیں کی جا سکتی۔
SEE ALSO: بھارت: گیان واپی مسجد کی جگہ پر کیا کبھی مندر تھا، مورخین کیا کہتے ہیں؟ان کا کہنا تھا کہ اب تو بدایوں، علی گڑھ اور جل گاؤں کی کئی سو سال پرانی مساجد پر بھی دعویٰ کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح قطب مینار کے احاطے میں واقع مسجد کے بارے میں ریکارڈ طلب کیا گیا ہے۔
ان کے خیال میں یہ سب سیاسی معاملات ہیں اور کیس قائم کرنے والوں کو حکومت کی شہہ ملی ہوئی ہے۔
سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ ایم آر شمشاد نے وارانسی کورٹ کے فیصلے کو غلط قرار دیا ہے۔
انہوں نے 1991 کے عبادت گاہوں کے قانون کے حوالے سے کہا کہ جب کوئی قانون بنتا ہے تو اس کا ایک مقصد ہوتا ہے۔ اس قانون کے مقاصدپر بھی نظر رکھنی چاہیے۔ اگر مسجد کے اندر نماز کے علاوہ دیگر سرگرمیاں انجام پائیں گی تو یہ مسجد کی ہیئت بدلنے جیسا ہوگا۔
اس سے قبل مسلم تنظیموں کی جانب سے گیان واپی مسجد کے سروے کے حکم کی مخالفت کی گئی تھی۔ رکن پارلیمان اسد الدین اویسی اور دیگر کے مطابق عبادت گاہ قانون گیان واپی مسجد میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کو روکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ گیان واپی کا سروے مذکورہ قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
SEE ALSO: بھارت میں مسلمانوں کے خلاف منافرت میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟قانون کے خلاف بھی درخواست دائر
عبادت گاہوں کے قانون کو سپریم کورٹ میں لکھنؤ کی ایک تنظیم ’وشو بھدر پجاری پروہت مہاسنگھ‘، سناتن ویدک مذہب کے پیرو کاروں اور دہلی کے ایک وکیل اور بی جے پی رہنما اشونی اپادھیائے کی جانب سے چیلنج کیا گیا ہے۔
ان درخواستوں میں استدلال کیا گیا ہے کہ چونکہ آئین کا بنیادی عنصر کسی بھی قانون پر نظرِ ثانی ہے لیکن یہ قانون اس پر پابندی لگاتا ہے لہٰذا یہ من مانا اور غیر حقیقت پسندانہ ہے۔
ان کے مطابق یہ قانون ہندو، جین، بدھ اور سکھ برادری کے مذہبی حقوق کے منافی ہے۔