|
اسرائیل کے قومی سلامتی کے ایک سابق مشیر نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ حماس اور حزب اللہ کو تہران اور بیروت میں اپنے دو سینئر رہنماؤں کے قتل کے بعد اس بارے میں فیصلہ کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے کہ اسرائیل کے خلاف انہیں کیا کارروائی کرنی چاہیے۔
ان دونوں عسکری گروپوں کو ایران کی سرپرستی حاصل ہے۔
اسرائیل کے ایک ریزرو بریگیڈیئر اور وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے قومی سلامتی کے سابق مشیر جیکب ناگل نے بدھ کے روز وائس آف امریکہ کے ساتھ ٹیلی فون پر ایک انٹرویو میں ان وسوسوں اور مخمصوں پر بات کی جن کا سامنا حماس اور حزب اللہ کو کرنا پڑ رہا ہے۔
ناگل واشنگٹن میں امریکی خارجہ پالیسی اور سیکیورٹی ریسرچ گروپ فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز کے ایک سینئر فیلو ہیں اور وہ اسرائیل میں مقیم ہیں۔
اسرائیل نے منگل کے روز بیروت میں کیے گئے اپنے ایک حملے میں لبنان کے عسکری گروپ حزب اللہ کے ایک اعلیٰ فوجی کمانڈر فواد شکر کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ حزب اللہ کو امریکہ نے ایک دہشت گرد گروپ کے طور پر نامزد کر رکھا ہے۔ تاہم حزب اللہ نے ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ شکر کی ہلاکت ایک حملے میں ہوئی تھی۔
حزب اللہ نے ایک بیان میں صرف یہ کہا ہے کہ "عظیم جہادی کمانڈر برادر فواد شکر اس عمارت میں موجود تھے" جسے "صیہونی دشمن" نے نشانہ بنایا۔
بیان نے کہاگیا ہے کہ ریسکیو ٹیمیں واقعہ کے بعد سے ملبہ ہٹانے کا کام کر رہی ہیں... اور ہم ابھی تک عظیم کمانڈر اور دیگر شہریوں کے حوالے سے اس آپریشن کے نتائج کا انتظار کر رہے ہیں جو عمارت میں موجود تھے۔
اسرائیلی حکومت اور اس کی فوج نے اس حملے کے متعلق کچھ نہیں کہا جس کے بارے میں ایران اور دہشت گرد گروپ حماس نے کہنا ہے کہ گروپ کے سیاسی سربراہ اسماعیل ہنیہ کو تہران میں ایک حملے میں ہلاک کر دیا گیا ہے۔
حماس اور ایرانی میڈیا نے کوئی شواہد پیش کیے بغیر ایران کے صدرمقام تہران میں ایک رہائش گاہ پر بدھ کو کیے جانے والے حملے کا الزام اسرائیل پر لگایا ہے۔
وائس آف امریکہ کے ناگل کے ساتھ کیے گئے ٹیلی فونک انٹرویو کو اختصار کے ساتھ یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔
وائس آف امریکہ: تہران میں حماس کے سیاسی سربراہ ہنیہ کے قتل پر آپ کا کیا رد عمل ہے؟
جیکب ناگل(فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز): اسرائیل پر 7 اکتوبر کو ہونے والے دہشت گرد حملے کے ذمہ دار حماس کے تین سیاسی سربراہ تھے۔ ہنیہ، خالد مشعل اور صالح العاروری، جس کے بارے میں حماس کا الزام ہے کہ اسرائیل نے جنوبی بیروت میں انہیں 2 جنوری کے حملے میں ہلاک کر دیا تھا۔ دو جا چکے ہیں۔ اور ایک کا جانا باقی ہے۔
اسماعیل ہنیہ کے بارے میں مزید آرٹیکل
اسماعیل ہنیہ کے قتل پر عالمی ردِعمل؛ امریکہ کا اظہارِ لاتعلقی اسماعیل ہنیہ کا قتل؛ اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی بڑھنے کے خدشاتحماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ ایران میں قتلاسماعیل ہنیہ؛حماس کا سیاسی اور سفارتی چہرہوائس آف امریکہ: آپ کے خیال میں ایران کیا جواب دے گا؟
ناگل: ایران جوابی کارروائی کرے گا۔ وہ اس کے لیے عموماً حماس یا حزب اللہ کو استعمال کرتا ہے۔ حماس جوابی کارروائی کرنا چاہے گا۔ لیکن اب اس کے پاس زیادہ صلاحیت باقی نہیں رہی (اسرائیل سے نو ماہ کی جنگ کی وجہ سے)۔ اگر وہ تل ابیب پر میزائل فائر کرنا چاہتا ہے تو کر سکتا ہے۔
حزب اللہ کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ اس کے پاس بہت زیادہ صلاحیتیں ہیں۔ انہیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آیا وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے (نو ماہ کے کم سطح کے) تنازع کو انتقامی کارروائی کے اگلے درجے تک لے جانا چاہتا ہے۔ آیا وہ مکمل جنگ چاہتے ہیں یا نہیں؟ اگر وہ اس طرح کی جوابی کارروائی کریں گے جیسا کہ میرے خیال میں وہ کریں گے تو اسرائیل کو بھی ان کے خلاف جوابی کارروائی کرنا پڑے گی۔ لبنان میں کافی اہداف ہیں جن پر ہم حملہ کر سکتے ہیں۔ اور ہم دیکھیں گے کہ آخری جوابی کارروائی کرنے والا کون ہے۔ آخری ہونا اتنا اہم نہیں ہے بلکہ اس کے نتائج اہم ہیں۔
وائس آف امریکہ: ردعمل آنے کی صورت میں آپ اسرائیلی حکام سے کس طرح کے اقدامات کی توقع رکھتے ہیں؟
ناگل: اسرائیل کی ہوم فرنٹ کمانڈ صورت حال سے مقابلے کی تیاری کے معاملے میں کوئی بھی تبدیلی نہیں کر رہی۔ اگر ہمیں کوئی خصوصی احتیاط کرنے کی ضرورت پڑی تو ہم کریں گے۔ اس وقت اسرائیلی کسی بھی طرح کی ہدایات کو سنیں اور اگر سائرن بجتا ہے تو وہ کسی پناہ گاہ میں چلے جائیں۔ ہم شمال سے جنوب تک اور کسی بھی دوسری جگہ اسرائیل کی سیکیورٹی کا خیال رکھ رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ کے مائیکل لپن کی رپورٹ۔