پاکستان کے وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ صحافی اسد علی طور پر حملے میں ملوث ایک ملزم کی شناخت کے بہت قریب ہیں۔
منگل کو اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے شیخ رشید احمد کا کہنا تھا کہ نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)، وفاقی تفتیشی ادارے (ایف آئی اے) اور پولیس کیس کی تحقیقات کر رہی ہیں جب کہ ملزمان کی شناخت کے لیے جلد اشتہار بھی دیے جا رہے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا اُمید ہے کہ ملزمان کے فنگر پرنٹس کی رپورٹ کل تک آ جائے گی جب کہ ریسپشنسٹ کے بیان کے مطابق یہ افراد اس سے قبل بھی اس بلڈنگ میں آتے رہے ہیں اور چہرہ شناسا ہونے کی وجہ سے انہیں بلڈنگ کے اندر آنے دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اس واقعے میں ملوث افراد کو گرفتار کرنا ضروری ہے کیوں کہ ایسے واقعات کے ذریعے حساس اداروں پر خاص مقاصد کے لیے الزام لگایا جا رہا ہے جو قابلِ مذمت ہے۔ لہذٰا ملزموں تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تو سب کے منہ بند ہو جائیں گے۔
خیال رہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے ناقد سمجھے جانے والے صحافی اور یوٹیوبر اسد علی طور کو گزشتہ ہفتے تین نامعلوم افراد نے اسلام آباد میں اُن کے فلیٹ میں گھس کر تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔
اسد طور نے اس حملے کا الزام پاکستان کے خفیہ ادارے 'انٹر سروسز انٹیلی جنس' (آئی ایس آئی) پر لگایا تھا۔ تاہم آئی ایس آئی نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے اسے ادارے کو بدنام کرنے کی سازش قرار دیا تھا۔
جمعے کو اسد طور پر ہونے والے حملے کے خلاف صحافیوں کے احتجاج میں حامد میر نے بھی ایک تقریر کی تھی جس کے بعد سے یہ معاملہ پاکستان میں موضوع بحث ہے۔
ایف آئی اے میں طلبی پر اسد طور کا اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع
صحافی اسد طور پر اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب کے باہر ان کے دیے جانے والے بیان پر راولپنڈی کے عام شہری کی درخواست پر ایف آئی اے نے اُنہیں چار جون کو طلب کر لیا ہے جب کہ اسد طور نے اس طلبی کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔
اسد طور کو گزشتہ روز راولپنڈی کے رہائشی فیاض محمود راجہ کی درخواست پر ایف آئی اے میں طلب کیا گیا تھا جس میں حکومتی اداروں کے خلاف الزام عائد کرنے پر ان کے خلاف مقدمہ کے اندراج اور گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
ایف آئی اے نے اس بارے میں چار جون کو اسد طور کو ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ میں طلب کیا تھا لیکن منگل کو اسد طور نے ہائی کورٹ سے رجوع کر کے ایف آئی اے کی جانب سے طلبی کا نوٹس ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔
ہائی کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں وزارتِ داخلہ، ایف آئی اے، اسسٹنٹ ڈائریکٹر سائبر کرائم اور نجی ٹی وی کی اینکر پرسن کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔ درخواست میں ایف آئی اے کا نوٹس کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسد طور کی درخواست بدھ کو سماعت کے لیے مقرر کر دی ہے جس کی سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ کریں گے۔
اسد طور پر حملے کے ملزم پکڑے گئے تو اپنے بیان پر معافی مانگ لوں گا، حامد میر
اس سے قبل اسی معاملے کی وجہ سے پاکستان کے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز سے آف ایئر ہونے والے صحافی حامد میر نے معافی مانگنے کی مشروط پیش کش کی تھی۔
حامد میر نے منگل کو اپنے ایک ٹوئٹ میں اشارتاً کہا ہے کہ "اگر وہ صحافی اسد طور پر حملہ کرنے والے ملزمان کو گرفتار کر لیں تو میں معافی مانگنے کے لیے تیار ہوں۔"
حامد میر نے اپنے ٹوئٹ میں لفظ 'وہ' کا استعمال کیا جس کے بعد ایک مرتبہ پھر بات ہو رہی ہے کہ ان کا اشارہ کس کی جانب ہے۔
حامد میر کی جمعے کو سیکیورٹی اداروں سے متعلق اشاروں کنایوں میں کی جانے والی ایک تقریر کے بعد انہیں جیو نیوز پر نشر ہونے والے پروگرام 'کیپٹل ٹاک' کی میزبانی سے روک دیا گیا تھا۔
جیو نیوز سے پیر کی شب آٹھ بجے نشر ہونے والے پروگرام 'کیپٹل ٹاک' کی میزبانی حامد میر کی جگہ مارننگ شو کے میزبان عبداللہ سلطان نے کی۔ تاہم انہوں نے اس پروگرام میں حامد میر کے آف ایئر ہونے کے معاملے کا ذکر نہیں کیا۔
البتہ دیگر نجی ٹی وی چینلز سے وابستہ صحافیوں نے پرائم ٹائم کے دوران اپنے پروگرامز میں حامد میر کو آف ایئر کیے جانے کے معاملے کو اٹھایا۔
صحافی نسیم زہرہ نے اپنے پروگرام کے دوران کہا کہ ملک میں قوانین اور عدالتیں موجود ہیں۔ اگر کسی کو صحافی کی کوئی بات پسند نہیں آئی، رپورٹ ٹھیک نہیں لگی تو اس طرح کے معاملات کو عدالتوں میں لے کر جایا جائے۔۔
یاد رہے کہ وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے جمعے کو برطانوی نشریاتی ادارے 'بی بی سی' کے پروگرام 'ہارڈ ٹاک' میں انٹرویو کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ وہ طلعت حسین کو صحافی نہیں مانتے۔
حامد میر کو کیوں آف ایئر کیا گیا؟
حامد میر کو چینل انتظامیہ کی جانب سے آف ایئر کرنے کا معاملہ ان کی ایک تقریر کے بعد سامنے آیا تھا۔ جمعے کو انہوں نے اسلام آباد میں صحافیوں کے ایک احتجاج کے دوران اشاروں کنایوں میں پاکستان کے سیکیورٹی اداروں پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'اگر آپ ہمارے گھر میں گھس کر ماریں گے تو ہم آپ کے گھر میں نہیں گھس سکتے۔ لیکن ہم آپ کے گھر کے اندر کی باتیں آپ کو بتائیں گے۔'
حامد میر نے صحافیوں کے جس احتجاجی مظاہرے سے خطاب کیا تھا وہ صحافی اسد علی طور پر گزشتہ ہفتے تین نامعلوم ملزمان کی جانب سے کیے جانے والے حملے کے خلاف کیا جا رہا تھا۔
جنگ و جیو گروپ کا مؤقف
'جنگ و جیو' گروپ نے منگل کو شائع 'جنگ' اخبار میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ "حامد میر کی تقریر اور اس کے بعد سامنے آںے والے عوامی ردِ عمل پر ایڈیٹوریل کمیٹی اور وکلا کے ساتھ صورتِ حال کا جائزہ لیں گے کہ پالیسی یا قانون کی کوئی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی۔ اس دوران کیپٹل ٹاک کی میزبانی عارضی میزبان کے سپرد کی جارہی ہے۔"
جنگ گروپ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ملک میں کسی بھی دوسری میڈیا آرگنائزیشن کے مقابلے میں کرپشن، توہین مذہب اور غداری جیسے سیکڑوں جھوٹے الزامات پر جنگ جیو گروپ کو بند کیا گیا، ہمارے صحافیوں کو مارا پیٹا گیا۔ اپنے ناظرین اور قارئین کو حالات سے باخبر رکھنے میں ادارے کو 10 ارب روپے سے زائد کا مالی نقصان بھی برداشت کرنا پڑا۔
حالیہ واقعات کے بارے میں بیان میں کہا گیا کہ گروپ اور اس کے ایڈیٹرز کے لیے مشکل ہو گیا کہ وہ اپنے دائرہ اختیار سے باہر کی گئی تقریر یا تحریر کے مواد کی ذمے داری کیسے لیں، جو واقعتاً ایڈیٹوریل ٹیم نے دیکھا ہو اور نہ ہی اس کی منظوری دی ہو۔
دوسری جانب صحافتی تنظیموں اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے حامد میر کو آف ایئر کرنے کی مذمت کی ہے جب کہ بعض حلقے حامد میر کے آف ایئر کیے جانے کو چینل انتظامیہ پر حکومتی دباؤ کا شاخسانہ بھی قرار دے رہے ہیں۔
تاہم وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ کس نشریاتی ادارے نے کیا پروگرام نشر کرنا ہے اور اس کی ٹیم کیا ہوگی یہ فیصلہ ادارے خود کرتے ہیں۔ ہمارا اداروں کے اندرونی فیصلوں سے کوئی تعلق نہیں۔
وائس آف امریکہ کے عاصم علی رانا کی رپورٹ کے مطابق جنگ گروپ کے ایک سینئر کارکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ حامد میر کو فی الحال آف ایئر کیا گیا ہے لیکن وہ بدستور گروپ کا حصہ رہیں گے۔
ان کے بقول پروگرام 'کیپٹل ٹاک' کسی اور اینکر کے ذریعے جاری رہے گا اور حالات بہتر ہونے پر حامد میر ہی اس پروگرام کو دوبارہ کریں گے۔
ملک میں جس قدر پابندیاں آج ہیں 70 برس میں نہیں تھیں، حنا جیلانی
اسد طور پر حملے اور حامد میر پر پابندی کے خلاف اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب میں منگل کو ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے عہدے داروں نے پریس کانفرنس کی۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انسانی حقوق کی کارکن حنا جیلانی نے کہا کہ آزادیٔ اظہار اور صحافت پر جس قدر پابندیاں اور مشکلات موجودہ دور میں ہیں بقول ان کے گزشتہ 70 برس میں نہیں تھیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
اسد طور کے الزامات اور اس کی تردید
یاد رہے کہ صحافی اسد طور نے الزام عائد کیا تھا کہ ان پر حملہ کرنے والے تین ملزمان کا کہنا تھا کہ ان کا تعلق پاکستان کے خفیہ ادارے انٹر سروس انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) سے ہے۔
لیکن حکومت کا مؤقف تھا کہ اسد طور پر حملے کی تحقیقات جاری ہیں۔ تاہم قبل از وقت کسی کو موردِ الزام ٹھیرانا درست نہیں۔
دوسری جانب آئی ایس آئی نے بھی وزارتِ اطلاعات کے توسط سے جاری ایک بیان میں اسد طور پر ہونے والے مبینہ تشدد سے اظہارِ لاتعلقی کیا تھا۔
آئی ایس آئی کا مؤقف تھا کہ وہ کیس کی تفتیش میں تعاون کرنے کے لیے بھی تیار ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ اسد طور پر ہونے والے حملے کے الزامات ظاہر کرتے ہیں کہ سازش کے تحت آئی ایس آئی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جب کہ آئی ایس آئی سمجھتی ہے کہ سی سی ٹی وی میں ملزمان کی شکلیں واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہیں تو پھر کیس کی تفتیش کو آگے بڑھانا چاہیے۔