پاکستان کی پارلیمان کے ایوانِ بالا (سینیٹ) کی قائمہ کمیٹی برائے ماحولیاتی تبدیلی کو بتایا گیا ہے کہ پاکستان نے سعودی عرب، ایران اور متحدہ عرب امارات سمیت دیگر خلیجی ممالک اور امریکہ، کینیڈا ،بیلجیئم، اٹلی، اسپین، فرانس سمیت یورپی خطے سے گزشتہ ایک سال کے دوران لگ بھگ 80 ہزار ٹن فاضل مادے درآمد کیے۔
ان اشیا میں الیکٹرانک آلات، المیونیم، کیمیکل اور دیگر دھاتوں سے بنی ہوئی اشیا سمیت طبی فضلہ بھی شامل ہے۔
اس حوالے سے بھی آگاہ کیا گیا ہے کہ ملک کے اندر پیدا ہونے والا تقریباََ تین کروڑ ٹن سالڈ ویسٹ سمیت درآمد کیے گئے فاضل مادے کا کچھ حصہ غیر روایتی ری سائیکلنگ انڈسٹری کا ایندھن بنتا ہے۔
حکام نے بریفنگ کے دوران مزید بتایا کہ اصل مسئلہ ان فاضل اشیا میں شامل زہریلے مواد کا ہے جو اس کا لگ بھگ 20 فی صد بنتا ہے۔
وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی شیری رحمٰن کا کہنا ہے کہ پاکستان بین الاقوامی معاہدوں کی روشنی میں اس بات کو ممکن بنائے گا کہ ملک میں زہریلے فاضل مواد سے لوگوں کی جانوں اور صحت کو محفوظ بنایا جاسکے۔
ان کا کہنا تھا کہ مہلک فاضل مادوں کو تلف کرنے کے لیے پالیسی بہت پہلے بن جانی چاہیے تھے تاہم ایسی پالیسی کی تیاریاں کافی تکنیکی اور پیچیدہ کام ہوتا ہے، جس پر عمل درآمد ممکن بنانے کے لیے صوبوں کی ماحولیاتی تحفظ کی ایجنسیوں کی اہلیت کو بھی مزید بڑھانا ہوگا تاکہ وہ مہلک فضلے کو معیاری طریقے سے ڈسپوز کرسکیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پانی کے ذخائر اور زمین کو محفوظ بنانے کے لیے اسے تلف کرنا انتہائی ضروری ہے۔
شیری رحمٰن کے خیال میں 20 فی صد مہلک اور خطرناک فضلہ آنا کافی زیادہ ہے اور اس کے لیے نجی اداروں کو حکومتی ادارے ہی این او سی جاری کرتے ہیں۔ اس میں شفافیت لانے کی ضرورت ہے۔بعض ممالک نے قانونی فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے ڈمپنگ بھی کی ہے۔
وفاقی حکومت نے حال ہی میں خطرناک فضلے کے انتظام کے لیے ملک کی پہلی قومی پالیسی کی منظوری دی ہے، جس کے تحت بیرونِ ملک سے آئے ہوئے سالڈ ویسٹ اور ملک کے اندر پیدا ہونے والے کچرے کو غیر قانونی طور پر ڈمپ کرنے کی ممانعت ہوگی۔
اس پالیسی پر عمل درآمد کے لیے فریم ورک کی تیاری کے لیے تین ماہ کا وقت مقرر کیا گیا ہے۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس پالیسی پر عمل درآمد کرکے ملک میں آبی ذخائر اور زمینوں کو آلودگی سے بچایا جاسکتا ہے اور اس کے لیے اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبوں کو بھی مشاورتی عمل میں شامل کیا گیا ہے جب کہ فاضل مادوں کو استعمال کرنے والی صنعتوں سے بھی مشاورت کی جا رہی ہے۔
دوسری جانب ماحولیات کے ماہرین سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کی موجودہ صورتِ حال پر افسوس کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے نقصان دہ عمل کو سنبھالنے کے لیے استعداد بڑھانے اور اس میں مہارت کی اشد ضرورت ہے تاکہ زمین، آبی ذخائر اور گزرگاہوں کے ساتھ سمندر کو بھی آلودگی سے بچایا جاسکے۔
ماحولیات کے کنسلٹنٹ رفیع الحق کا کہنا ہے کہ فاضل اشیا کے انتظام میں سب سے بڑی رکاوٹ پالیسی کے نہ ہونے کے ساتھ اس حوالے سے قائم اداروں میں اہلیت کا فقدان بھی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس کی سب سے بڑی مثال شپ بریکنگ انڈسٹری ہے، جس کا حجم اربوں روپے ہے لیکن ملک میں اتنی بڑی انڈسٹری بغیر کسی قانون اور ضوابط کے کئی برس سے چل رہی ہے۔اس کے نتیجے میں گڈانی میں واقع شپ بریکنگ یارڈ میں اکثر حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ آگ لگتی ہے جس میں قیمتی جانوں کا ضیاع بھی ہوچکا ہے لیکن اس بارے میں بلوچستان کے ماحولیاتی تحفظ کے ادارے ہوں یا اس کام کی نگرانی کرنے والے دیگر وفاقی ادارے، ان میں اہلیت کا فقدان صاف نظر آتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
رفیع الحق کا مزید کہنا تھا کہ یہ بات خوش آئندہ ہے کہ ملک میں خطرناک فضلے کے انتظام کے لیے پہلی بار پالیسی مرتب کی گئی ہے۔
ان کے خیال میں ابھی اس حوالے سے بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بعض قوانین تو موجود ہیں لیکن ان پر عمل درآمد صفر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں ناکارہ سمجھے جانے والے فضلے کو دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان بھیج دیا جاتا ہے۔
ادھر پاکستان کے اقوامِ متحدہ میں مستقل مندوب منیر اکرم نے اقوامِ متحدہ کی سمندروں کے بارے میں عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ سمندر کی سطح بڑھ رہی ہے، ساحلی کٹاؤ بدتر ہو رہا ہے، سمندری آلودگی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سمندری حیاتیاتی تنوع تیزی سے کم ہو رہا ہے اور سمندر گرم اور تیزابیت والے ہوتے جارہے ہیں۔
SEE ALSO: پاکستان: قبل از وقت مون سون بارشوں سے کئی شہروں میں معمولاتِ زندگی متاثران کا مزید کہنا تھا کہ جس چیز کی فوری ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ عمل درآمد کے ذرائع کو متحرک کیا جائے جب کہ فنانسنگ، ٹیکنالوجی کی منتقلی اور صلاحیت کی تعمیر کے ساتھ سائنسی علم اور تحقیق کو بڑھانا بھی ضروری ہے تاکہ ترقی پذیر ممالک کو بالخصوص سمندروں کی حفاظت اور بحالی میں مدد فراہم کی جاسکے۔
منیر اکرم نے بتایا کہ پاکستان شپ بریکنگ انڈسٹری کو بہتر بنانے کے لیے گرین شپ بریکنگ پروجیکٹ شروع کررہا ہے جس میں ماحولیاتی مسائل کو حل کرنے کو پہلی ترجیح بنایا گیا ہے۔