راولپنڈی کے پرانے قلعے میں قائم قدیم مندر کو دوبارہ کھولنے کے اعلان کے بعد نامعلوم افراد نے حملہ کر کے اسے نقصان پہنچایا ہے۔
مندر پر یہ حملہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب متروکہ وقف املاک بورڈ اور ضلعی انتظامیہ ہندوؤں کی اس 100 برس قدیم عبادت گاہ کو بحال کرنے کے لیے تزئین و آرائش میں مصروف ہے۔
حملے کے نتیجے میں مندر کے دروازوں، سیڑھیوں سمیت مختلف مقامات پر آرائش کو نقصان پہنچا۔ قبل ازیں انتظامیہ نے مندر کے اطراف میں قائم تجاوزات ختم کی تھیں۔
متروکہ وقف املاک بورڈ کی درخواست پر پولیس نے واقعے کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کر لیا ہے۔
برصغیر کی تقسیم کے بعد بھارت ہجرت کرنے والے ہندوؤں اور سکھوں کی چھوڑی ہوئی جائیدادیں اور املاک متروکہ وقف املاک بورڈ کی زیرِِ نگرانی ہیں۔ متروکہ وقف املاک بورڈ کا کام ان عمارتوں کی نگرانی اور حفاظت ہے۔
پاکستان کی حکومت نے ہندوؤں کے تاریخی اور مذہبی مقامات کو بحال کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور اس ضمن میں چاروں صوبوں میں مندروں کی تزئین و آرائش کے بعد انہیں مقامی ہندو برادری کے حوالے کیا جا رہا ہے۔
ہندوؤں کے حقوق کے لیے سرگرم 'پاکستان ہندو رائٹس موومنٹ' کے سروے کے مطابق تقسیم کے وقت پاکستان میں 428 ہندو مندر تھے جن میں سے صرف 20 عبادت کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔ جب کہ دیگر 408 مندر بند ہیں یا ان کی عمارت کو دیگر مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
دوسری جانب متروکہ وقف املاک بورڈ کے مطابق پاکستان کے طول و عرض میں واقع 400 سے زائد مندروں، پاٹھ شالاؤں، دھرم شالاؤں اور دیگر تاریخی نوعیت کے مقدس مقامات کو بحال کیا جائے گا اور ضروری تعمیر نو کے بعد انہیں عبادت اور سیاحت کے لیے کھول دیا جائے گا۔
حالیہ عرصے میں حکومت نے سیالکوٹ کے ایک ہزار سال قدیم شیولا تیجا سنگھ مندر، بلوچستان کے ضلع ژوب، خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے تاریخی مندر اور آزاد کشمیر کے شاردا پیٹھ مندر کو بحال کیا ہے۔
متروکہ وقف املاک بورڈ کے ایڈیشنل سیکریٹری طاہر وزیر کہتے ہیں کہ پاکستان میں اقلیتوں کے مذہبی مقامات اور ان سے ملحق وسیع املاک ہیں جن پر لوگ عرصہ دراز سے قابض ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ املاک پر قابض یہ مافیا نہیں چاہتا کہ اقلیتوں کی عبادت گاہیں بحال ہوں اور وہ ہر جگہ ملوث ہوکر فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
راولپنڈی کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے طاہر وزیر کہتے ہیں کہ پرانا قلعہ مندر کے گرد تجاوزات کو ختم کیا گیا تھا اور ابھی بحالی کے بعد مزید دکانیں بھی خالی کرانا تھیں اس وجہ سے ان املاک کے شراکت دار افراد نے شرارت کرکے ماحول خراب کرنے کی کوشش کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مندر کی بحالی سے قبل ان شرارتی لوگوں کا سامنے آنا اچھا ہے۔ مشترکہ وقف املاک بورڈ نے ان کے خلاف کارروائی کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو باقاعدہ درخواست دی ہے۔
پاکستان میں ہندو، سکھ، بدھ مت اور دیگر مذاہب کے قدیم ورثے پر مشتمل ہزاروں مقامات ہیں اور حکومت ملک میں ہم آہنگی اور مذہبی سیاحت کے فروغ کے لیے ان تاریخی مقامات کو کھولنے کی پالیسی پر عمل کر رہی ہے۔
قومی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین چیلا رام کیوالنی کہتے ہیں کہ حکومت اقلیتوں کے مذہبی مقامات کو بحال کرکے مقامی برادری کے حوالے کرنا چاہتی ہے۔ البتہ اس حوالے سے سیکیورٹی خدشات موجود ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اقلیتوں کی مذہبی عبادت گاہوں کی حفاظت کے حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے۔
چیلا رام کیولانی نے بتایا کہ حکومت کی اقلیتی عبادت گاہوں کو مقامی افراد کے حوالے کرنے میں دلچسپی کے بعد متروکہ وقف املاک بورڈ ہر سال دو سے تین مندر اور گردوارے بحال کرنے کے منصوبے پر کام کر رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اصل مسئلہ ان قیمتی املاک کو عرصۂ دراز سے قابض افراد سے خالی کرانا ہے جس کے لیے صوبائی حکومتوں کو ذمہ داری ادا کرنی ہو گی۔
قومی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین نے بتایا کہ 500 کے قریب مندر اور گردوارے متروکہ وقف املاک بورڈ کی تحویل میں ہیں جنہیں بحال کرکے مقامی براداری کے حوالے کرنے کے احکامات سپریم کورٹ بھی دے چکی ہے۔
خیال رہے کہ امریکہ کی مذہبی آزادی کی گزشتہ سال کی رپورٹ میں بین الاقوامی مذہبی آزادی ایکٹ کے تحت پاکستان کو خاص تشویش والے نو ممالک میں شامل کیا گیا تھا۔