بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی سے متصل ریاست ہریانہ میں ہندو مسلم فسادات کے نتیجے میں پانچ افراد ہلاک جب کہ 200 سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔ مشتعل افراد نے گروگرام میں ایک مسجد کو بھی نذرِ آتش کر دیا ہے۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں دو پولیس اہل کار بھی شامل ہیں۔
فسادات کا مرکز نئی دہلی سے لگ بھگ 50 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہریانہ کا ضلع میوات ہے جہاں نوح کے علاقے میں اب بھی صورتِ حال کشیدہ ہے۔ اس علاقے میں مسلمان اکثریت میں آباد ہیں۔
نوح پولیس کے ترجمان کرشن کمار نے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ ایک مذہبی جلوس ایک مندر سے دوسرے مندر کی جانب جا رہا تھا کہ اس دوران تصادم ہوا۔ تصادم کے نتیجے میں چار افراد کی اموات ہوئی ہیں جن میں پولیس اہل کار بھی شامل ہیں۔
کرشن کمار کا کہنا تھا کہ تصادم کے نتیجے میں شروع ہونے والے فسادات پر قابو کرنے کے دوران 10 پولیس اہل کار زخمی بھی ہوئے ہیں۔
بھارتی اخبار ’ہندوستان ٹائمز‘ کی رپورٹ کے مطابق تحصیل نوح میں ہونے والے فسادات میں 200 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں جب کہ مشتعل افراد نے کئی درجن گاڑیوں کو نذرِ آتش کر دیا۔
نوح کے علاقے سے شروع ہونے والے فسادات بعد ازاں دیگر علاقوں میں بھی پھیل گئے جن میں گروگرام (گڑگاؤں) کا علاقہ بھی شامل ہے۔
پیر کی شب گروگرام میں ایک مسجد کو نذر آتش کر دیا گیا جب کہ یہاں بھی ایک شخص فسادات میں ہلاک ہوا جب کہ بعض افراد کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات موصول ہوئیں۔
بھارتی نشریاتی ادارے ’این ڈی ٹی وی‘ کے مطابق مرکزی وزیر اور گروگرام سے رکن پارلیمنٹ راؤ اِندرجیت سنگھ نے انجمن جامع مسجد کے نذرِ آتش کرنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس دوران فائرنگ بھی کی گئی جس کی زد میں دو افراد آئے جن میں ہلاک ہونے والا شخص مسجد کا امام تھا۔
گروگرام کو ملک کی معاشی سرگرمیوں کا مرکز بھی سمجھا جاتا ہے جہاں کئی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دفاتر ہیں۔
’رائٹرز‘ کے مطابق حکام نے گروگرام سمیت دیگر علاقوں میں پیر کو فسادات کے بعد منگل کو تعلیمی ادارے بند کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔
مشتعل افراد نے پیر کی شب کئی گاڑیوں کو بھی نذر آتش کر دیا تھا جس کے بعد حکام نے امن عامہ کے قیام کے لیے سخت احکامات جاری کیے ہیں۔
گروگرام کی پولیس نے منگل کو ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ مسجد پر حملہ کرنے والے بیشتر افراد کی نشان دہی کر لی گئی ہے جب کہ ان میں سے بعض کو حراست میں بھی لے لیا گیا ہے۔
’این ڈی ٹی وی‘ کے مطابق مرکزی وزیر راؤ اندرجیت سنگھ کا کہنا ہے کہ قیام امن کے لیے گروگرام میں پیرا ملٹری فورس کے 20 دستے تعینات کر دیے گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مسجد نذرِ آتش کرنے اور امام مسجد کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث پانچ افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔
پولیس نے بھی واقعہ کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔ مرکزی وزیر کے مطابق مسجد نذرِ آتش کرنے کے واقعہ میں ملوث دیگر افراد کی گرفتار ی کے لیے پولیس چھاپے مار رہی ہے۔
واقعہ کے بعد پولیس حکام کا کہنا ہے کہ مذہبی مقامات کی سیکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔
ہریانہ کے ریاستی وزیرِ اعلیٰ منوہر لال کھٹر نے بھی نوح میں ہونے والے فسادات کی مذمت کی ہے جب کہ اس علاقے میں کرفیو نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ بھی بند کر دیا گیا ہے۔
ایک بیان میں منوہر لال کھٹر کا کہنا تھا کہ ان فسادات میں ملوث افراد کے خلاف ہر صورت میں سخت کارروائی کی جائے گی۔
بھارتی میڈیا کے مطابق جس مذہبی جلوس کے دوران فسادات ہوئے اس کی منتظم انتہا پسند ہندو تنظیم ’ویشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی)‘ تھی جب کہ اسے برج منڈل جلبیشک یاترا کا نام دیا جاتا ہے۔
اس یاترا میں لگ بھگ ڈھائی ہزار افراد شریک تھے جو فسادات کے بعد مختلف مندروں میں قیام پذیر تھے۔ ’ہندوستان ٹائمز‘ کی رپورٹ کے مطابق پولیس نے ان افراد کو مندروں سے مختلف مقامات پر منتقل کر دیا ہے۔
تحصیل نوح میں مذہبی فسادات کے بعد پولیس نے لگ بھگ 20 مقدمات درج کیے ہیں جب کہ اطلاعات کے مطابق ان فسادات میں ملوث ہونے کے الزام میں 20 افراد کو حراست میں بھی لیا گیا ہے تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ زیرِ حراست افراد کا تعلق کس فرقے سے ہے۔
’این ڈی ٹی وی‘ کے مطابق فسادات سے چند دن قبل ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر لگائی گئی تھی جس میں قبلِ اعتراض مواد تھا۔ یہ ویڈیو شدت پسند ہندو تنظیم کے ایک رکن نے مبینہ طور پر سوشل میڈیا پر پوسٹ کی تھی۔
اس رپورٹ میں بعض معلومات خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے لی گئی ہیں۔