امریکہ میں ایوانِ نمائندگان میں منگل کو ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت میں وائٹ ہاؤس کے سابق چیف آف اسٹاف مارک میڈوز کے خلاف کانگریس کی توہین کی کارروائی کی منظوری کے لیے رائے شماری ہوئی۔
اس رائے شماری میں 430 ارکان نے حصہ لیا جس میں سے 222 نے کارروائی کے حق میں جب کہ 208 نے اس کی مخالفت میں رائے دی۔
رواں برس جنوری میں کانگریس پر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کی چڑھائی کی تحقیقات میں معاونت نہ کرنے پر مارک میڈوز کے خلاف توہینِ کانگریس کی کارروائی کی منظوری دی گئی ہے۔
اس سے قبل ٹرمپ کے سابق مشیر اسٹیو بینن پر کانگریس کی توہین کرنے کے الزام میں فردِ جرم عائد کی گئی تھی۔ انہوں نے بھی کیپٹل ہل پر ہونے والی چڑھائی کی تحقیقات کرنے والی ایوان کی کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے انکار کیا تھا۔
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق 1830 کے بعد پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ایوان کے کسی رکن کے خلاف توہینِ کانگریس کی کارروائی کی منظوری دی گئی ہو۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے مارچ 2020 میں شمالی کیرولائنا سے ایوان نمائندگان کے رکن مارک میڈوز کو وائٹ ہاؤس کا چیف آف اسٹاف مقرر کیا تھا۔ ان سے قبل مک ملوانی ایک سال سے زیادہ عرصے تک قائم مقام چیف آف اسٹاف تھے۔ مارک میڈوز نے رواں برس جنوری میں ٹرمپ کی صدارتی مدت ختم ہونے تک وائٹ ہاؤس کے چیف آف اسٹاف کے طور پر خدمات انجام دی تھیں۔
امریکی اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ کی رپورٹ کے مطابق مارک میڈوز کے خلاف کانگریس کی مجرمانہ توہین کی منظوری دی گئی ہے کیوں کہ انہوں نے تحقیقات میں کمیٹی کی مدد سے انکار کیا تھا۔
رپورٹس کے مطابق ڈیموکریٹس تو اس کارروائی کی منظوری کے حوالے سے متحرک تھے۔ البتہ ’نیو یارک ٹائمز‘ کے مطابق ری پبلکن پارٹی کے دو ارکان وائمونگ سے لِز چینی اور الی نوئے سے ایڈم کنسنگر نے بھی کارروائی کے حق میں ووٹ دیے۔
امریکہ کے ایوان نمائندگان منگل کو ووٹنگ کے بعد متوقع طور پر مارک میڈوز کے خلاف کانگریس کی توہین کے الزامات کو محکمہ انصاف کو بھیجا جائے گا۔
مارک میڈوز نے 2020 کے صدارتی الیکشن کے نتائج ٹرمپ کے حق میں مبینہ طور پر بدلنے کی کوشش میں اپنے کردار کے بارے میں کانگرس کے سامنے گواہی دینے سے انکار کر دیا تھا۔
پیر کو سات ڈیموکریٹ اور دو ری پبلکن ارکان پر مشتمل کانگریس کمیٹی نے متفقہ طور پر سفارش کی تھی کہ میڈوز کے خلاف جرم کا ارتکاب کرنے کے الزامات عائد کیے جائیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
کمیٹی کی سفارش پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے مارک میڈوز نے امریکی نشریاتی ادارے ’فاکس نیوز‘ سے پیر کو گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ کمیٹی کا فیصلہ مایوس کن ہے البتہ یہ حیران کن نہیں ہے۔
انہوں نے الزام لگایا تھا کہ اس کارروائی کا مقصد ڈونلڈ ٹرمپ کو نشانہ بنانا ہے۔
پیر کو کمیٹی کے ووٹ سے قبل کانگریس کی ری پبلکن رکن لز چینی نے میڈوز کو ارسال کردہ ان تفصیلی ٹیکسٹ میسجز کا ذکر کیا جو چھ جنوری کو کیپٹل ہل پر ہونے والی چڑھائی کے دوران بھیجے گئے تھے۔
ان پیغامات میں قدامت پسند میڈیا کی ممتاز شخصیات اور ٹرمپ کے ایک بیٹے نے میڈوز پر زور دیا تھا کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کو آمادہ کریں کہ وہ اپنے حامیوں کے اقدامات کو روکنے کے لیے مزید کچھ کریں۔
لِز چینی نے کہا کہ مذکورہ پیغامات ٹرمپ کی سب سے بڑی لاپرواہی کو ظاہر کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ پیغامات سوالات اٹھاتے ہیں کہ ٹرمپ نے کچھ نہ کر کے، صدارتی انتخابات کے نتائج کی کانگریس میں توثیق کے عمل میں رکاوٹ ڈالی۔
کانگریس کی ری پبلکن رکن لِز چینی کا کہنا تھا کہ ان پیغامات کے بعد کوئی شک نہیں رہتا کہ وائٹ ہاؤس کو علم تھا کہ کیپٹل ہل پر کیا ہو رہا تھا۔
میڈوز وائٹ ہاؤس کے چیف آف اسٹاف بننے سے پہلے ری پبلکن پارٹی کے شمالی کیرولائنا ریاست کے ایوان نمائندگان کے رکن تھے۔
خیال رہے کہ میڈوز نے اپنے ذاتی ای میل اکاونٹ سے چھ ہزار صفحات پر مشتمل ریکارڈ ایوان نمائندگان کی کمیٹی کے حوالے کیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے 200 ٹیکسٹ پیغامات بھی کمیٹی کو دیے ہیں۔
ایوان نمائندگان کی کمیٹی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کی 11 ماہ قبل ہونے والے پر تشدد کارروائی کی تحقیقات کر رہی ہے۔
ٹرمپ کے حامیوں نے اس وقت کیپٹل ہل پر دھاوا بول دیا تھا جب کانگریس 2020 کے انتخابات میں موجودہ صدر جو بائیڈن کی کامیابی کی توثیق کر رہی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
ٹرمپ کے حامیوں نے کانگریس کی عمارت پر چڑھائی کر دی تھی۔ عمارت کی کھڑکیاں توڑ دی تھیں جب کہ پولیس کے ساتھ بھی ان کی جھڑپیں ہوئی تھیں۔
شروع میں میڈوز نے رضامندی ظاہر کی تھی کہ وہ کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر اپنے کردار کے متعلق مؤقف بیان کریں گے البتہ بعد ازاں انہوں نے اپنا فیصلہ بدل لیا تھا۔ فیصلہ بدلتے وقت انہوں نے اس سلسلے میں ٹرمپ سے متعلق دستاویز کو خفیہ رکھنے کا استحقاق استعمال کرنے کا حوالہ دیا تھا۔
اتوار کو کمیٹی نے 51 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا ہے کہ مارک میڈوز ڈونلڈ ٹرمپ کو صدارتی انتخابات میں شکست کے باوجود وائٹ ہاؤس میں رکھنے کی کوششوں میں ملوث تھے۔
ایوانِ نمائندگان کے پینل نے اب تک 300 کے قریب ان گواہوں اور قانون سازوں کے انٹرویو کیے ہیں جن کے تانے بانے چھ جنوری کو ہونے والے فسادات سے ملتے ہیں۔
اس رپورٹ میں کچھ مواد خبر رساں اداروں ’ایسوسی ایٹد پریس‘ اور ’رائٹرز‘ سے لیا گیا ہے۔