آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے قریب پہنچنے کے حکومتی دعوے کتنے درست ہیں؟

فائل فوٹو

حکومتِ پاکستان اور وزرا کی جانب سے بار ہا ایسے بیانات سامنے آرہے ہیں کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)کے ساتھ معاہدے کو دوبارہ پٹری پر لانے کے لیے تمام تر پیشگی شرائط اور بیرونی فنانسنگ کا انتظام کرلیا گیا ہے اور اب اگلے ہفتے تک یہ معاہدہ ہو جانے کی امید ہے۔

لیکن ان دعوؤں کے برعکس معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان اب بھی آئی ایم ایف کے ساتھ قرض معاہدے سے کوسوں دور دکھائی دیتا ہے۔

خیال رہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے مطابق پاکستان آئی ایم ایف پروگرام بحال کرنے کے لیے پانچ ارب ڈالر کی بیرونی فنانسنگ کے انتظامات کی شرط رکھی گئی تھی۔

اس ضمن میں حکومت کا کہنا ہے کہ سعودی عرب نے دو اور متحدہ عرب امارات نے ایک ارب ڈالر پاکستان کو دینے کی یقین دہانی آئی ایم ایف کو کردای ہے۔ چین کی جانب سے پہلے ہی دو ارب ڈالر کی رول اوررنگ کرکے رقم پاکستان کو دی جاچکی ہے جس کی تحریری یقین دہانی کی اب کوئی ضرورت نہیں رہی۔

تاہم سابق مشیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ کا خیال ہے کہ حکومت اپنی ساکھ کھو چکی ہے اور یہی آئی ایم ایف پروگرام کے دوبارہ شروع ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

سلمان شاہ نے یہ بھی کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے دوست ممالک بھی اس معاملے پر خاموش ہیں اور یہ خاموشی بذات خود پاکستان کے لیے اپنا گھر بہتر بنانے کا پیغام ہے۔

دوسری طرف اگر پاکستان فنڈ کے ساتھ اپنا پروگرام دوبارہ شروع کرنے کے قابل نہیں ہوا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پاکستان دوسرے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے مالی پروگرامز سے فائدہ نہیں اٹھا پائے گا۔

Your browser doesn’t support HTML5

مقروض ملکوں کے دیوالیہ ہونے کی تاریخ کتنی پرانی ہے؟

انہوں نے مزید کہا کہ چین کے ساتھ قرضوں کی تنظیم نو، رول اوور اور نئے قرضے فراہم کرنے کے حوالے سے بھی کوئی سنجیدہ بات چیت ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔

ادھر پاکستانی فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر چین کے چار روزہ سرکاری دورے پر ہیں جس میں فوجی تعلقات پر بات چیت کی جائے گی۔

لیکن کئی ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ اس دورے میں چینی حکام سے معاشی پیکیج حاصل کرنے سمیت پاکستان کے ذمے قرضوں کی رول اوورنگ سمیت اس ضمن میں دیگر امور پر بھی بات چیت کو شروع یا آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔

ماہر معاشیات ڈاکٹر عادل علی کا کہنا ہے کہ اس کو خارج از امکان قرار نہیں دیا سکتا کیوں کہ آئی ایم ایف کے گزشتہ سال جائزے کو حتمی شکل دینے کے لیے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی امریکی حکام سے گفتگو کی تھی۔

اس لیے ڈاکٹر عادل علی ان معاملات پر چینی حکام کے ساتھ بات چیت کے امکانات کو روشن دیکھ رہے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہےکہ ان ممکنہ مذاکرات کے نتائج سامنے آنا ابھی باقی ہیں۔



دوسری جانب وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے عید کی تعطیلات میں بھی چینی سفارت خانے کی ناظم الامور مس پونگ شنزوئی سے ملاقات کی جس میں ترجمان وزارت خزانہ کے مطابق دو طرفہ امور کو مزید بڑھانے پر غور کیا گیا۔


اس بارے میں سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے گزشتہ ہفتے وائس آف امریکہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ آئی ایم ایف نے کبھی بھی پاکستان کو 3 ارب ڈالر کی بیرونی فنانسنگ کا بندوبست کرنے کو نہیں کہا تھا۔

اُن کا کہنا تھا کہ فنڈ نے 6 ارب ڈالر کا بندوبست کرنے کو کہا تھا تاہم پاکستانی حکام نے اب تک چار ارب ڈالر رقم ہی کا بندوبست کیا ہے اور امید ہے کہ دو ارب ڈالر مزید بھی ہوجائیں گے۔ لیکن اس لیے مزید یقین دہانیوں کی ضرورت ہوگی تبھی آئی ایم ایف کا پروگرام بحال ہوسکتا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

’اسحاق ڈار کے مقابلے میں احسن اقبال بہتر وزیرِ خزانہ ثابت ہوتے‘

ادھر وزارت خزانہ کے سابق مشیر ڈاکٹر خاقان نجیب کا خیال ہے کہ 9 ویں جائزے کو حتمی شکل دینا بیرونی فنانسنگ ہی کی وجہ سے رکا ہوا ہے اور اس میں تین ارب ڈالر کا شارٹ فال ہے اور یہ کمی بڑی حد تک کثیر جہتی اور کمرشل ریفنانسنگ سے منسلک ہے۔

ڈاکٹر نجیب بھی پرامید ہیں کہ اسے بھی جلد حاصل کرلیا جائے گا۔ چین سے متعلق پوچھے گئے سوال پر ڈاکٹر نجیب نے بتایا کہ جب کسی اور ملک نے پاکستان کی معاشی طور پر فی الحال مدد نہیں کی تو چین نے حال ہی میں پاکستان کو تقریباً 2 بلین ڈالر کی ری فنانسنگ کی ہے اور اسی وجہ سے پاکستان کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 4.4 ارب ڈالر کی سطح کو پہنچے ہیں۔ انہوں نے مزید وضاحت کی کہ آئی ایم ایف پروگرام دوبارہ شروع ہونے کے بعد پاکستان چینی بینکوں سے مزید تجارتی فنانسنگ کی امید کر رہا ہے۔

دریں اثنا، مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ایک بار پھر اس امید کا اظہار کیا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ پاکستان کے ساتھ عملے کی سطح کے معاہدے کو جلد حتمی شکل مل جائے گی اور اسے منظوری کے لیے آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کے سامنے پیش کر دیا جائے گا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اسٹاف لیول ایگریمنٹ کے لیے تمام پیشگی شرائط پہلے ہی پوری کی جاچکی ہیں۔