بھارت نے رواں ہفتے اپنے زیرِ انتظام کشمیر کے صدر مقام سرینگر میں دنیا کی 20 عالمی معیشتوں کے اتحاد 'جی20' کے سیاحت سے متعلق ورکنگ گروپ کا اجلاس منعقد کیا جو حکومتی عہدیداروں کے مطابق کامیاب رہا اور وہ اسے ہمالیائی خطے کی سیاحت کے لیے اچھا قرار دے رہے ہیں۔
بھارت نے گزشتہ برس دسمبر میں جی 20 کی صدارت سنبھالی تھی اور وہ رواں سال 30 نومبر تک اس پر فائز رہے گا۔ اپنی میزبانی کے دوران بھارت ملک بھر کے 55 مقامات پر 215 تقریبات منعقد کر رہا ہے جب کہ جی 20 کا سربراہی اجلاس 9 اور 10 ستمبر کو دارالحکومت نئی دہلی میں منعقد ہوگا۔
سرینگر میں 22 سے 24 مئی تک ہونےوالا یہ اجلاس ورکنگ گروپ کا بھارت میں رواں برس ہونے والا تیسرا اجلاس تھا۔ اس سے قبل ریاستِ گجرات کے علاقے رن آف کچھ اورمغربی بنگال کے سیاحتی مقام سلی گڑی میں اجلاس منعقد ہوئے تھے۔
لیکن سرینگر میں ہونے والے اجلاس کو بھارتی حکومت اور مقامی منتظمین نے بہت اہمیت دی اور اس کی کافی تشہیر کی جب کہ یہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز رہا۔
صحافی اور تجزیہ کار بھارت بھوشن کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت سرینگر میں جی20کے ایونٹ کا انعقاد کرکے نہ صرف جموں و کشمیر کی سیاحتی ا ستعداد کی نمائش کرانا چاہتا تھا بلکہ دنیا کو یہ پیغام بھی دینا چاہتا تھا کہ وہ علاقے میں امن اور معمولات زندگی کو بحال اور استحکام پیدا کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔
واضح رہے نئی دہلی نے پانچ اگست2019کو جموں وکشمیر کی آئینی نیم خود مختاری کو ختم کرکے ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کردیا تھا اور انہیں براہِ راست وفاق کے زیرِ کنٹرول علاقے بنا دیا تھا۔
بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ بھارت سرینگر میں جی20 اجلاس منعقد کرکے یہ باور کرانا چاہتا تھا کہ پانچ اگست2019کو اس کی طرف سے اٹھایا گیا یہ اقدام کامیاب رہا ہے ۔ نیز وہ کشمیر پر اپنے اس مؤقف کی کہ یہ اس کا ایک اٹوٹ اور ناقابلِ تنسیخ حصہ ہے بین الاقوامی برادری سے تائید چاہتا تھا۔
سرینگر میں اجلاس انتہائی کامیاب رہا: حکام
جی 20 میں بھارت کے 'شیرپا' امیتابھ کانت نے سرینگر میں گروپ کے اجلاس کو انتہائی کامیاب قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس اجلاس کے دوران مختلف موضوعات پر جو بحث و مباحثے ہوئے ان کے نتیجے میں چند شاندار خیالات ابھرے ہیں اور ان پر عمل سے جموں وکشمیر کو بےحد فائدہ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ جن مندوبین نے اس اجلاس میں شرکت کی وہ اپنے ساتھ جموں و کشمیر کے عوام کی گرمجوشی اور محبت اور مہمان نوازی کے اظہار کی یادیں بھی لے گئے ہیں۔ جی20کا یہ اجلاس اس خطے میں امن اور خوشحالی کے پیغام کو دنیا میں پھیلا دے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
حکام کا کہنا ہے کہ اس اجلاس میں بڑی تعداد میں غیرملکی مندوبین کی شرکت سے جموں و کشمیر کی معیشت کو کئی لحاظ سے فروغ حاصل ہوگا اوراس طرح بڑی مقدار میں غیرملکی زرِمبادلہ کمانے اور علاقے میں بیرونی سرمایہ کاری بڑھانے کے لیے بھی راہیں ہموار ہوں گی۔
اجلاس میں کون شریک ہوا, کون نہیں؟
جی 20 کے اس ورکنگ گروپ اجلاس میں میزبان ملک کے نمائندوں کے علاوہ 53غیر ملکی مندوبین نے شرکت کی۔
ان میں سے پانچ مندوبین سنگاپور، برطانیہ اور نائیجیریا کے چار چار، امریکہ، آسٹریلیا، کینیڈا اور اسپین کے تین، تین، برازیل، فرانس، ماریشس، جنوبی کوریا، جنوبی افریقہ اور متحدہ عرب امارات کے دو، دو ارجنٹائن، بنگلہ دیش، جرمنی، انڈونیشیا، اٹلی، جاپان، میکسیکو، ہالینڈ اور روس سے ایک نمائندے نے شرکت کی۔
اس کے علاوہ یورپین یونین اور دیگر عالمی تنظیموں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او)، انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن(آئی ایل او) اور یونائٹیڈ نیشنز انوائرمنٹ پروگرام (یو این اے پی) کے سات نمائندے بھی شریک ہوئے۔
چین نے بائیکاٹ کیوں کیا؟
چین جو جی 20 کا ایک اہم رکن ہے اس نے اس اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ اجلا س کے آغاز سے قبل چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان وانگ وین بین نے کہا تھاکہ اُن کا ملک متنازع جموں و کشمیر میں جی 20کا اجلاس منعقد کرنے کے سخت خلاف ہے۔
ان کا مؤقف تھا کہ "چین متنازع علاقے میں جی20کا اجلاس منعقد کرنے کی مخالفت کرتا ہے۔ہم ایسے اجلاسوں میں شریک نہیں ہوں گے۔"
Your browser doesn’t support HTML5
اجلاس سے سعودی عرب اورترکیہ بھی غیر حاضر رہے جبکہ جن نو غیر رکن ممالک کو اس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی ان میں سے ایک اہم ملک مصر نےبھی اس دعوت کو خاموشی سے ٹھکرادیا۔
چین نے ریاست اروناچل پردیش میں بھی منعقد ہونے والے ایسی ہی تقریبات میں شرکت نہیں کی تھی ۔چین کا مؤقف کہ اروناچل پردیش اس کا حصہ ہے۔
پاکستان کا اعتراض
پاکستان نے سرینگر اور بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے دو اور شہروں جموں اور لیہہ میں جی20 کی تقریبات کے انعقادپر اعتراض کیا تھا۔
پاکستان کا کہنا تھا کہ جموں و کشمیر چوں کہ ایک متنازع علاقہ ہے لہٰذا نئی دہلی یہاں اس طرح کے اجلاس اور تقریبات کا اہتمام کرکے اقوامِ متحدہ کی کشمیر پر قراردادو ں، عالمی قوانین اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی صریحاً خلاف ورزی کر رہا ہے۔
بھارت نے پاکستان کے اس اعتراض کے جواب میں کہا تھا کہ جی20کے اجلاس پورے ملک میں ہورہے ہیں اس لیےجموں و کشمیر اور لداخ میں ان کا انعقاد کوئی انہونی بات نہیں کیوں کہ اس کے بقول یہ پورا خطہ بھارت کا ایک اٹوٹ اور ناقابلِ تنسیخ حصہ ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین پاکستان کا ایک قریبی دوست ملک ضرور ہے لیکن حالیہ برسوں میں اس کے بھارت کے ساتھ تعلقات نہ صرف سرد مہری کا شکار رہے بلکہ لداخ کے علاقے میں دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان گزشتہ کئی برس سےمحاذ آرائی چل رہی ہے۔
SEE ALSO: سرینگر میں جی20 اجلاس: بھارت کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟اس کے علاوہ بھارت کی شمال مشرقی ریاست ارونا چل پردیش میں بھی گزشتہ سال دسمبر میں دونوں ممالک کے فوجیوں میں جھڑ پ ہوئی تھی اور پھر چین کی طرف سے اس ریاست کے کئی علاقوں کے نام بدلنے کے اقدام نے تلخیوں کو مزید گہرا بنادیا تھا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جی 20 تقریبات میں شریک ہونے سے چین کے انکار کو اس پس منظر میں بھی دیکھا جانا چاہیے۔
کیا پاکستان نے کوئی لابنگ کی تھی؟
بعض اطلاعات میں کہا گیا ہے پاکستان نے جی 20میں شامل اپنے دوست ممالک سے سفارتی سطح پر رابطہ قائم کرکے ان سے سرینگر، جموں اور لیہہ میں ہونے والے اجلاسوں میں شریک نہ ہونے کی استدعا کی تھی ۔
بھارت میں حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اجلاس میں چین، سعودی عرب، ترکیہ اور مصر کی عدم شرکت سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ بھارت کےوزیرِ مملکت جتیندر سنگھ نے کہا کہ چین کی عدم شرکت بھارت کا نہیں بلکہ خود چین کا نقصان ہے۔
امیتابھ کانت نے بتایا کہ چین واحد جی20ملک ہے جو اس اجلاس میں شریک نہیں ہوا۔
سعودی عرب، ترکیہ اور چند دوسر ے رکن ممالک اورمصر کی اجلاس سے غیر حاضری کے بارے میں پوچھے گیے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان ملکوں کی نمائندگی ان کے تاجر اور صنعتی شعبوں سے تعلق رکھنے والے مندوبین نے کی۔ انہوں نے کہا کہ چند ایسے ممالک جن کو دعوت دی گئی تھی ورچوئل موڈ کے ذریعے اجلاس میں شرکت کرنا چاہتے تھے۔
ان کا کہنا تھا "اگر کوئی ملک شرکت نہیں کررہا ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ ہمارا دشمن بن گیا ہے۔ اس معاملے کو اُس حد تک نہ لے جائیں۔"
لیکن ایک نجی گفتگوکے دوران بعض بھارتی حکام نے یہ اعتراف کیا کہ سرینگر میں جی20کے اس اجلاس کے حوالے سے پاکستان نے اپنے ان دوست ملکوں کےساتھ جو لابنگ کی تھی وہ کامیاب رہی ہے۔
جی 20 اجلاس سے متعلق بھارت میں جنوبی کوریا کے سفیر نے کہا تھا کہ ان کا ملک جی 20 کی صدارت سنبھالنے میں بھارت کی پوری تائید و حمایت کرتا ہے۔
کشمیر کے بارے میں پوچھے گئےایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا تھا"ہر ایک ملک کا کسی بھی معاملے پر اپنا مؤقف ہوتا ہے لیکن جہاں تک جمہوریہ کوریا کا تعلق ہے۔ ہم بھارت کی جی20 کی صدارت کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور اسے بھرپور تعاون دے رہے ہیں۔"
Your browser doesn’t support HTML5
واضح رہے کہ بھارت نے پانچ اگست 2019 کے بعد کشمیر میں پہلی مرتبہ ایک بین الاقوامی تقریب منعقد کی تھی۔
تجزیہ کار بھارت بھوشن کا کہنا ہے اس حقیقت کے پیش نظر اس اجلاس کو غیر معمولی ہائپ دی گئی۔ لیکن ان کے بقول یہ ضرورت سے زیادہ بڑھاوا آہستہ آہستہ ختم ہوتا ختم ہوتا نظر آنے لگا کیوں کہ چند رکن ممالک نے اجلاس میں شرکت کرنے سے انکار کردیا اور بعض نے شرکا کی تعداد میں کمی کردی۔
انہوں نے بنگلور سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامے 'دی دکن ہیرالڈ' میں شائع اپنے ایک تجزیے میں کہا ہے کہ "سرینگر میں جی20اجلاس کے کامیاب انعقادکو بھارت کی ٹوپی میں ایک اور پنکھ سمجھا جاتا ،لیکن اب لگتا ہے کہ ایسا کوئی امکان نہیں ہے۔"
صحافی اور 'دی ہندوستان ٹائمز' کے پولیٹیکل ایڈیٹر ونود شرما نے وائس آف امریکہ کو بتایا "چین کا مؤقف بالکل واضح ہے اور سب اس سے واقف ہیں۔ دوسرے ممالک جو غیر حاضر رہے وہ کشمیر کے مسئلے پر اپنےمؤقف کو ہم تک اور باقی دنیا تک پہنچانا چاہتے تھے۔ جہاں تک ترکیہ کا تعلق ہے اس نے کشمیر پر بھارت کا ساتھ نہیں دیا ہے اوراس مرتبہ بھی اس نے ایسا ہی کیا ہے۔"