رسائی کے لنکس

سرینگر میں جی20 اجلاس: بھارت کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟


عالمی معیشتوں کی تنظیم جی 20 کا سربراہی اجلاس رواں سال کے ستمبر میں بھارت کی میزبانی میں نئی دہلی میں منعقد ہوگالیکن بھارت اس سے قبل ہی گروپ کے صدر کی حیثیت سے ملک کے مختلف حصوں میں جی20 کے پروگرام اور تقریبات منعقد کر رہا ہے۔ اسی تسلسل میں 22 سے 24 مئی تک بھارت کے زیرانتظام کشمیر کے گرمائی دارالحکومت سرینگر میں سیاحت سے متعلق اتحاد کے ورکنگ گروپ کا اجلاس ہو رہا ہے۔

متعدد ممالک سرینگر میں اجلاس کے انعقاد پر اعتراض کر رہے اور ایک طرح سے اس کا بائیکاٹ کر رہے ہیں۔ بائیکاٹ کرنے والوں میں چین پیش پیش ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے۔ وہ ورکنگ گروپ کے اجلاس اور دیگر تقریبات میں شرکت نہیں کر رہا ہے۔ اس سے قبل چین نے اروناچل پردیش اور لداخ میں منعقدہ تقریبات میں بھی شرکت نہیں کی تھی۔

پاکستان اگرچہ جی 20 کا رکن نہیں ہے تاہم سرینگر میں اس کے سیاحت سے متعلق ورکنگ گروپ کے اجلاس کے انعقاد کی مخالفت کر رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ بھارت وہاں عالمی اجلاس منعقد کرکے اقوام متحدہ کے چارٹر، اس کی قراردادوں اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہ

ترکیہ اور سعودی عرب بھی سرینگر میں ہونے والے اجلاس میں حصہ نہیں لے رہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ مصر بھی شریک نہیں ہو رہا ہے جسے بھارت نے خصوصی حیثیت سے مدعو کیا تھا۔ رپورٹس کے مطابق اجلاس میں انڈونیشیا بھی شرکت نہیں کرے گا۔

ادھر کینیڈا کی ایک سیاسی جماعت ’نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی‘ (این ڈی پی) نے حکومت سے اجلاس کے بائیکاٹ کی اپیل کی ہے۔ این ڈی پی نے بھارت پر کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام عاید کیا۔ تاہم کینیڈا کی حکومت نے اس اپیل کو نظرانداز کردیا ہے۔ بھارت انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزامات کی تردید کرتا آیا ہے۔

چین، ترکیہ اور سعودی عرب جی 20 کے رکن ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ان ملکوں کی عدم شرکت سفارتی نقطۂ نظر سے بھارت کے خلاف جاتی ہے۔ ان کے مطابق اس کے سفارتی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

بھارتی حکومت نے اگست 2019 میں جموں و کشمیر کو خصوصی اختیارات تفویض کرنے والی دفعہ 370 منسوخ کر دی تھی۔ متعدد ملکو ں نے اس اقدام کی مذمت کی تھی۔

بھارت کا مؤقف ہے کہ چوں کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے اس لیے وہ مذکورہ اقدام اور اپنے زیرِ انتظام کشمیر میں کسی بھی قسم کا پروگرام منعقد کرنے میں حق بجانب ہے۔ مذکورہ دفعہ کی منسوخی کے بعد کشمیر میں یہ پہلا بین الاقوامی ایونٹ ہے۔

بھارت نے چین کے بیان کے بعد سخت بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو علاقہ چین کے پاس ہے وہ متنازع ہے جو بھارت کے پاس ہے وہ غیر متنازع ہے۔

'جی 20 ممالک کو کشمیر میں اجلاس کا بائیکاٹ کرنا چاہیے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:27 0:00

بھارت کیا چاہتا ہے؟

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ گروپ 20 کی صدارت بھارت کے لیے بہت اہم ہے اور یہ اس کے لیے عالمی امور میں قائدانہ کردار کے مظاہرے کا ایک موقع بھی ہے۔

ان کے مطابق بھارت سرینگر میں جی 20 کے اجلاس کے انعقاد سے دنیا کو یہ دکھانا چاہتا ہے کہ 2019 کے بعد وہاں کے حالات بدل گئے ہیں اور خوشحالی آگئی ہےاورحالات معمول پر آگئے ہیں۔ بھارت اس اقدام سے ان لوگوں کو غلط ثابت کرنے کی بھی کوشش کر رہا ہے جو دفعہ 370 کی منسوخی کی مخالفت کر رہے ہیں اور جن کا یہ کہنا ہے کہ اس کے بعد کشمیر میں حالات مزید خراب ہوئے ہیں۔

مبصرین کے مطابق مئی کے مہینے میں جب کہ پورے ملک کا موسم انتہائی گرم رہتا ہے سرینگر کا موسم بہت خوشگوار ہوتا ہے۔ مئی کے مہینے میں اجلاس کے انعقاد کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ مندوبین پر اچھا اثر پڑے اور وہ بہتر تاثر لے کر لوٹیں۔

بین الاقوامی امور کے سینئر تجزیہ کار اسد مرزا اس کی تائید کرتے ہیں کہ بھارت سیاحت سے متعلق ورکنگ گروپ کے اجلاس کے انعقاد سے دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ کشمیر میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے اس قدم کا مقصد کشمیر میں سیاحت کو فروغ دینا ہے۔ وہ اس پروگرام کے توسط سے دنیا بھر کے سیاحوں کو کشمیر آنے کی دعوت دینا چاہتی ہے۔ ان کے مطابق سیاحت کشمیر کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے جو کہ کمزور ہوئی ہے۔ حکومت اب اسے ایک بار پھر مضبوط بنانا چاہتی ہے۔

وہ بعض مبصرین کے اس نقطۂ نظر سے متفق نہیں ہیں کہ بعض ملکوں کی عدم شرکت سے منفی سفارتی اثرات مرتب ہوں گے۔ ان کے بقول جی ٹوئنٹی کے جتنے اہم رکن ممالک ہیں اور جن پر بھارت اپنی توجہ مبذول کیے ہوئے ہے وہ سب اس میں شریک ہو رہے ہیں۔

اسد مرزا کہتے ہیں کہ چند ملکوں نے دفعہ 370 کی منسوخی کی مخالفت کی تھی لیکن جی ٹوئنٹی کے اہم ملکوں نے اس کی کبھی بھی مخالفت نہیں کی۔ اس اجلاس میں 60 مندوبین شرکت کر رہے ہیں جن میں امریکہ، برطانیہ، روس، آسٹریلیا، کینیڈا، جرمنی، فرانس، جاپان اور یورپی یونین کے مندوبین شامل ہیں۔

یاد رہے ترکیہ، سعودی عرب اور مصر اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے رکن ہیں اور او آئی سی کی جانب سے دفعہ 370 کی منسوخی پر تنقید کی جاتی رہی ہے جسے بھارت مسترد کرتا رہا ہے۔ تاہم او آئی سی کے دیگر ملک جیسے کہ بنگلہ دیش، عمان اور متحدہ عرب امارات اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔

’اجلاس کو مودی حکومت کی خارجہ پالیسی کے تناظر میں دیکھنا چاہیے‘

اسد مرزا کے مطابق جی 20 اجلاس کو بھارت کی خارجہ پالیسی کے تناظر میں بھی دیکھاجانا چاہیے۔ نریندر مودی حکومت اپنی خارجہ پالیسی میں کامیاب ہے اور وہ اس اجلاس کے توسط سے دنیا کو جو پیغام دینا چاہتی ہے اس میں بھی اس کی کامیابی کے امکانات ہیں۔

سابق سفارت کار اشوک سجن ہار بھی مودی حکومت کی خارجہ پالیسی کو کامیاب قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 2014 کے بعد امریکہ، برطانیہ، وسطی ایشیا اور خلیجی ملکوں کے ساتھ بھارت کے رشتے بڑھے اور مضبوط ہوئے ہیں۔

ان کے مطابق مودی حکومت نے جو آزاد خارجہ پالیسی اپنا رکھی ہے اس کو روس یوکرین تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ جی 20 کے اجلاس کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔

جی 20 اجلاس کے چیف کوآرڈینیٹر ہرش وردھن شرنگلا کے مطابق ہم ایک انوکھا اجلاس منعقد کر رہے ہیں۔ اس سے قبل بھارت نے مغربی بنگال اور گجرات میں سیاحت کے سلسلے میں جو اجلاس منعقد کیے تھے ان میں اتنے غیر ملکی مندوبین نے شرکت نہیں کی تھی جتنے کہ اس میں شرکت کر رہے ہیں۔

بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے جی ٹوئنٹی اجلاس سے قبل جاپان میں دنیا کے سات امیر ترین جمہوری ممالک کے جی سیون گروپ اجلاس میں بھی شرکت کی تھی اور مبصرین کے مطابق اس فورم پر بھی جی ٹونٹنی کی اہمیت پر زور دیا تھا۔

امریکی تھنک ٹینک ولسن سینٹر میں ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائکل کوگلمین کے مطابق بھارت جی ٹوئنٹی کی صدارت کے ذریعے ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کے درمیان پل کا کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔

اپنے ٹوئٹ میں کوگلمین کا کہنا تھا کہ یہی وجہ سے تھی نریندر مودی نے جی سیون سے خطاب میں صحت اور خوراک سے متعلق عدم تحفظات کا خاص طور پر ذکر کیا۔ یہ وہ چیلجز ہیں جو سب سے زیادہ ترقی پذیر ممالک کو درپیش ہیں۔

مقامی ردعمل

مقامی سیاست داں اور تجزیہ کار اس اجلاس کے انعقاد کی مخالفت کر رہے ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کا کہنا ہے کہ حکومت نے جو سیکورٹی انتظامات کیے ہیں اس کی وجہ سے عام لوگوں کی زندگی اور مشکل ہو گئی ہے۔

انھوں نے سرینگر میں ایک نیوز کانفرنس میں اجلاس سے قبل کشمیر میں عائد کی جانے والی پابندیوں کو امریکہ کی فوجی جیل گوانتانامو بے سے تشبیہ دی ہے۔ ان کے اس بیان پر جموں و کشمیر انتظامیہ نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔

اسی دوران اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ برائے اقلیتی امور فرنانڈ ڈے ویرینے نے پیر کو ایک بیان جاری کرکے الزام عاید کیا کہ بھارت متنازع علاقے میں جی 20 اجلاس منعقد کرکے کشمیری مسلمانوں اور اقلیتوں کو ان کے جمہوری اور دیگر حقوق نہ دینے کو معمول کی بات قرار دینے کی کوشش کر رہا ہے۔

ان کے خیال میں حکومت اس اجلاس کی مدد سے کشمیر میں اپنے اقدامات پر عالمی مہر ثبت کروانا چاہتی ہے۔

بھارتی حکومت نے اس بیان پر تاحال کوئی ردعمل نہیں دیا ہے۔ تاہم بھارتی حکومت اپنے زیر انتظام کشمیر میں زندگی معمول پر آنے کا دعویٰ کرتی ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG