اتوار کو دنیا بھر سے مختلف ممالک نے موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے غریب ملکوں کی امداد کے لیے فنڈ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس فیصلے کو 30 برس قبل اقوامِ متحدہ میں ماحولیات پر بحث کے آغاز کے بعد غیر معمولی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے اس فنڈ کے قیام سے بنیادی طور پر یہ بات تسلیم کر لی گئی ہے کہ غریب ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب موسم کی شدت کا سامنا ہے جب کہ یہ بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ ان کی کسی حد تک مدد کرنا دنیا کی دیگر اقوام کی ذمہ داری ہے جہاں صنعتوں کے پھیلاؤ نے موسمیاتی تبدیلیوں میں سب سے زیادہ کردار ادا کیاہے۔
ایک جانب جہاں مختلف ممالک کی حکومتیں، ماہرینِ اور ماحولیاتی کارکنوں نے فنڈ کے قیام کے منصوبے کا خیر مقدم کیا ہے، وہیں اس فنڈ کے لیے رقوم جمع اور پھر تقسیم کرنے سمیت کئی اہم سوال بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔
یہاں ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے ’نقصان اور ضرر‘ سے کیا مراد ہوگی اور فنڈ کس طرح کام کرے گا؟ اس بارے میں تفصیلات دی جارہی ہیں۔
تاریخی پس منظر
لگ بھگ تین دہائیوں قبل 1990 میں ’الائنس آف اسمال آئی لینڈ اسٹیٹس‘ نے مطالبہ کیا تھا کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصانات کے ازالے کے لیے اقوامِ متحدہ کا بین الاقوامی سطح کا فنڈ قائم کیا جائے۔
مختلف چھوٹے ممالک کا یہ اتحاد اقوامِ متحدہ کے فنڈ کے قیام کا مطالبہ کر رہا تھا۔ یہ ممالک ان ساحلوں پر واقع تھے جہاں سمندر کی سطح بلند ہو رہی تھی جب کہ اس اتحاد میں چھوٹے جزائر بھی شامل ہیں۔
اس کے بعد سے اقوامِ متحدہ کے موسمیاتی تبدیلی پر ہونے والے سالانہ سمٹ میں یہ معاملہ ہمیشہ ایجنڈے میں شامل رہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
موسمیاتی تبدیلی پر اقوامِ متحدہ کےسالانہ اجلاس میں عمومی طور پر یہ معاملہ زیرِ بحث نہیں آتا تھا یا پھر اس کے لیے انتہائی کم وقت رکھا جاتا تھا البتہ رواں برس مصر کے شہر شرم الشیخ میں ہونے والے اجلاس ’کوپ 27‘ میں اس معاملے کو مرکزی اہمیت کا معاملہ قرار دیا گیا۔
کوپ 27 میں فنڈ کے قیام کے معاملے کو نہ صرف ایجنڈے کا حصہ بنایا گیا بلکہ فورم پر ہونے والی بحث کا محور بھی یہی موضوع رہا۔
کون اس فنڈ میں رقوم دے گا؟
اقوامِ متحدہ کے اس فنڈ میں ابتدائی طور پر ترقی یافتہ ممالک حصہ ڈالیں گے جب کہ مختلف سرکاری اور غیر سرکاری ذرائع سے بھی رقوم اس میں جمع ہوں گی۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارے اس کے لیے فنڈز فراہم کریں گے جب کہ یہ آپشن بھی ہے کہ وہ ممالک بھی اس کا حصہ ہو سکتے ہیں جن کی معیشت بہت بڑی ہے۔
اس میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ فنڈ کو وسعت دینے کے لیے مزید ذرائع کی بھی نشاندہی کی جائے گی۔ فنڈ کے قیام کے دوران یورپ کے ممالک، امریکہ اور بعض دیگر نے اس بات پر زور دیا کہ وہ اقوام جو دنیا میں آلودگی کی ذمے دار ہیں اور ان کو معیار کے مطابق ترقی پذیر قرار دیا جاتا ہے، انہیں بھی اس فنڈ کے لیے اپنا حصہ ملانا چاہیے۔
فنڈ کے قیام کے حوالے سے مذاکرات کے دوران چین کا کہنا تھا کہ اقوامِ متحدہ کے اس نئے فنڈ کے لیے رقم ترقی یافتہ ممالک کو دینی چاہیے، نہ کہ وہ اس کے لیے ادائیگی کرے۔ البتہ یہ روایت رہی ہے کہ چین رضاکارانہ طور پر فنڈ کے لیے رقم دے جب کہ امریکہ بھی ایسا ہی کرتا رہا ہے۔
سال 2014 میں امریکہ کے صدر براک اوباما تھے اور اس قت ’گرین کلائمٹ فنڈ‘ کے لیے واشنگٹن نے تین ارب ڈالر دیے تھے جب کہ چین نے تین ارب 10کروڑ ڈالر فنڈ میں شامل کیے تھے۔
اقوامِ متحدہ کے حالیہ قائم کردہ فنڈ کے حوالے سے ایک کمیٹی فیصلہ کرے گی کہ کون کتنی رقم فراہم کرے گا۔ اس حوالے سے ایک برس کے دوران فیصلے کیے جائیں گے۔
کن ممالک کو فنڈ سے ادائیگی ہو گی؟
اقوامِ متحدہ کے قائم کردہ فنڈ کے لیے ہونے والے معاہدے میں کہا گیا ہے کہ اس سے ان ترقی پذیر ممالک کی معاونت کی جائے گی جو موسمیاتی تبدیلی سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس کے ساتھ ساتھ ان ممالک کی معاونت کا بھی امکان ہے جہاں کی معاشی صورتِ حال متوسط ہے۔
اس فنڈ سے پاکستان اور کیوبا جیسے ممالک فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ پاکستان میں حالیہ عرصے میں سیلاب آیا تھا، اس دوران ملک کا ایک تہائی حصہ پانی میں ڈوب گیا تھا جب کہ کیوبا کو سمندری طوفان ایان کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
اس حوالے سے مزید تفصیلات آنے والے برس میں سامنے آئیں گی۔
اعتماد کی بحالی کی کوشش
اس فنڈ کے قیام سے ایک جانب جہاں متاثرہ ممالک کی مالی امداد ہو سکے گی وہیں اس اقدام کو ایک بڑی پیش رفت کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔ البتہ یہ واضح نہیں کہ یہ فنڈ کس قدر جلد ممکن ہو گا اور اس سے کب تک معاونت کا آغاز کیا جائے گا۔
اقوامِ متحدہ کے شرم الشیخ میں ہونے والے اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ جلد از جلد اس فنڈ کے قیام کے لیے کمیٹی بنائی جائے اور اس کمیٹی کو بھر پور مینڈیٹ بھی دیا جائے۔
واضح رہے کہ ماضی میں ایسا ہو چکا ہے کہ یقین دہانی کے باوجود اس پر عمل نہ ہو سکا۔ اس لیے اعتماد کا بھی فقدان پایا جاتا ہے۔
سال 2009 میں دنیا کے امیر ممالک نے یقین دہانی کرائی تھی کہ 100 ارب ڈالر ترقی پذیر ممالک کو فراہم کیے جائیں گے تاکہ وہ متبادل توانائی یعنی گرین انرجی سسٹم کے منصوبوں پر کام کر سکیں البتہ اب تک ان وعدوں پر مکمل عمل در آمد نہیں کیا جا سکا ہے۔
فیصلے کے اثرات
دنیا کے امیر یا ترقی یافتہ ممالک اقوامِ متحدہ کے موسمیاتی تبدیلی کے نقصانات کے ازالے کا فنڈ قائم کرنے کی مخالفت کررہے ہیں۔ انہیں اندیشہ ہے کہ یہ ایک ایسا بوجھ ہوگاجو انہیں آئندہ کئی برسوں تک اٹھانا پڑے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
وقت کے ساتھ ساتھ یہ بھی اہم ہے کہ مذاکرات کار کس طرح یہ ممکن بناتے ہیں کہ اس فنڈ میں دی جانے والی رقم کو ایک مستقل بوجھ کی جگہ رضاکارانہ تعاون سمجھا جائے۔
ان خدشات کے ساتھ ساتھ اقوامِ متحدہ کے فنڈ کے قیام کے عالمی سطح پر اثرات بھی ہوں گے جن میں قانونی معاملات بھی شامل ہیں جب کہ ان کی علامتی حیثیت بھی ہو سکتی ہے۔
اس کی سب سے بڑی مثال بحرالکاہل میں متعدد جزائر میں قائم حکومتوں کا یہ مطالبہ ہے کہ بین الاقوامی عدالتِ انصاف موسمیاتی تبدیلی کو بھی زیرِ غور لائے۔
ان جزائر پر قائم حکومتیں یہ بھی زور دیتی ہیں کہ بین الاقوامی قوانین کو بھی مزید مستحکم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کے حقوق کی حفاظت ہو کیوں کہ انہیں سمندر کی سطح میں مسلسل اضافے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والے نقصانات کے ازالے کے فنڈ کے قیام سے ان جزائر کے مؤقف کو بھی تقویت ملی ہے۔