"ہمیں ایجنٹوں نے دھوکہ دیا کیوں میرے بیٹے کو کشتی میں بھیجا؟ پہلے تو ایجنٹوں سے پوچھتے رہے کہ لڑکے کا فون کیوں نہیں آ رہا پھر کسی نے بتایا کہ ترکی کے قریب کشتی ڈوب گئی ہے۔ مرنے والوں میں سب سے پہلے میرے بیٹے کی تصویر آئی۔"
یہ الفاظ ہیں پنجاب کے شہر گجرات کی معمر خاتون ریاض بی بی کے جن کا 22 سالہ بیٹا علی شاہ غیر قانونی طور پر یورپ جا رہا تھا کہ یونان کے قریب سمندر میں کشتی ڈوبنے سے ہلاک ہو گیا۔
ریاض بی بی نے موبائل میں محفوظ اپنے بیٹے کی تصویر دکھاتے ہوئے بتایا کہ یہ پہلی عید ہے کیا خوشی ہے اس میں۔
انہوں نے کہا کہ "کشتی جب ڈوبی تو سب سے پہلے ہمارے بیٹے کی تصویریں ہی میڈیا پر آئیں۔ بہت لاڈلا نیک اور سوہنا بیٹا تھا میرا اس کا کوئی مول ہی نہیں تھا۔"
علی شاہ اور اس کے دو دوستوں نے گاؤں کے دیگر کچھ افراد کے کامیاب سفر سے متاثر ہو کر غیر قانونی طور پر یورپ پہنچنے کے لیے پرخطر سفر کا انتخاب کیا تھا۔
تینوں لڑکوں نے منڈی بہاؤالدین کے ایک ایجنٹ کے ساتھ چھ، چھ لاکھ روپے میں معاملہ طے کر کے ڈیڑھ لاکھ روپے ایڈوانس ادا کیے جب کہ باقی رقم یورپ پہنچنے کے بعد ادا کی جانا تھی۔
جس کشتی کے ذریعے ان لڑکوں کو غیر قانونی طور پر یونان پہنچایا جا رہا تھا وہ ترکی کے قریب ہی کھلے پانیوں میں ڈوب گئی جس کے نتیجے میں ان تینوں دوستوں سمیت گجرات، منڈی بہاؤالدین، سیالکوٹ، لالہ موسیٰ اور کھاریاں سے تعلق رکھنے والے مجموعی طور پر 16 نوجوان ہلاک ہو گئے۔
ریاض بی بی کا کہنا تھا کہ "ایجنٹ نے ہمارے ساتھ دھوکہ کیا، لڑکے کو کیوں کشتی میں بٹھایا تھا ہم سے مزید پیسے لے لیتے اور کسی محفوظ طریقے سے بھیجتے۔"
انہوں نے بتایا کہ بیٹے کو باہر جانے کا بہت شوق تھا، بھائی کہتے تھے کہ ہم سے خرچہ لے لیا کرو، بہنیں بھی روکتی رہیں کہ 'ڈنکی' مت لگاؤ لیکن اس نے کسی کی نہ سنی اور چلا گیا۔
مقامی زبان میں ڈنکی لگانے کا مطلب غیر قانونی راستوں سے ملکی سرحد عبور کرنا ہے۔
اسی کشتی پر سوار رحمان اشرف کے بھائی عمران اشرف کا کہنا تھا کہ ہم نے ایجنٹ سے رابطہ کر کے اپنے بھائی کو یونان پہنچانے کی بات کی۔ لڑکوں کو ڈنکی کروا کر ترکی کے قریب پہاڑوں تک پہنچایا گیا جہاں ہمارا رابطہ اپنے بھائی کے ساتھ رہا جب وہ کشتی پر بیٹھے تو ہماری ان کے ساتھ بات چیت بند ہو گئی۔ پھر ٹی وی چینلز سے پتا چلا کہ کشتی الٹ گئی جس سے سب لڑکے ڈوب گئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ رحمان کی عمر 18 برس تھی اور یہ اس نے دوسری مرتبہ ڈنکی لگائی تھی۔ پہلے وہ ایجنٹ کی وساطت سے ترکی پہنچ گیا تھا جس کے بعد یونان کے قریب پہنچا ہی تھا جہاں گرفتار ہو کر واپس ڈی پورٹ کر دیا گیا۔
عمران اشرف کے مطابق واپس آ کر اُس نے دوستوں کے ساتھ دوبارہ یونان جانے کا پروگرام بنایا پھر وہ تینوں دوست زندہ سلامت واپس نہیں آئے۔ عیدالاضحی سے ایک دن پہلے ان تینوں کی لاشیں گاؤں آ گئیں۔
ان دو نوجوانوں کے علاوہ بھی وسطی پنجاب کے اضلاع گجرات اور منڈی بہاؤ الدین کے کئی دیہات ایسے ہیں جہاں کے رہائشی غیر قانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش میں ہلاک ہوئے۔
سوال یہ ہے کہ آخر یہ نوجوان ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ یہ جاننے کے لیے ہم نے کئی متاثرہ گھرانوں سے رابطہ کیا ہے۔
زیادہ تر گھرانے جن کے لڑکے لاپتا ہیں انہوں نے میڈیا پر بات کرنے سے اجتناب کیا ہے جس کی وجہ سرکاری اداروں کی طرف سے ان کے خلاف ممکنہ قانونی کارروائی اور معاشرے میں بدنامی کا خوف تھا۔
یہ سلسلہ کب شروع ہوا؟
روزگار کے لیے یورپ جانے کا سلسلہ بظاہر 70 کی دہائی میں شروع ہوا اور 80 کی دہائی میں اپنے عروج پر پہنچا۔ اس دوران گجرات، منڈی بہاؤالدین، سیالکوٹ، گوجرانوالہ سمیت وسطی پنجاب کے اضلاع سے بڑی تعداد میں لوگ قانونی اور غیر قانونی طریقوں سے یورپ پہنچے اور ان افراد نے اپنے مقامی علاقوں میں عالیشان مکانات تعمیر کیے جن میں سے اکثر مکان سال بھر خالی رہتے ہیں۔
جہاں مقامی افراد میں دوسروں کی کامیاب زندگی کو دیکھتے ہوئے خطرات مول لینے کی خواہش پیدا ہوئی وہیں کئی ایسے نیٹ ورک اور ایجنٹس بھی منظم ہوئے جو لوگوں کو غیر قانونی طور پر یورپ لے جانے کا ذریعہ فراہم کرتے تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
کئی افراد کے لیے یہ آخری سفر ثابت ہوا لیکن یورپ جانے کے جنون کے سبب ان ایجنٹوں کے پاس کبھی یورپ جانے کے خواہش مندوں کی کمی نہیں ہوئی۔
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر سال تقریباً 15 ہزار افراد غیر قانونی راستوں سے ملک سے باہر جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پہلے اس سفر میں کامیابی سے منزل پر پہنچنے کی شرح 50 فی صد تھی لیکن اب یہ شرح کم ہو کر محض 20 فی صد رہ گئی ہے۔
'راستے کی دشواریوں سے روح کانپ جاتی ہے'
گجرات کے رہائشی نصیر احمد نے بھی قسمت آزمائی کی لیکن راستے میں پکڑے گئے اور ڈی پورٹ ہو کر وطن واپس آ گئے۔
نصیر احمد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انہوں نے ایران پہنچنے کے لیے ایجنٹ کو 80 ہزار روپے دیے تھے۔
نصیر احمد کے بقول وہ گجرات سے کراچی گئے تھے۔ جہاں سے ایجنٹ نے انہیں ایران کی سرحد پر پہنچانا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ کراسنگ کے دوران گاڑی میں لڑکے بھیڑ بکری کی طرح ٹھونسے ہوئے تھے، حتیٰ کہ ہماری گاڑی کی ڈگی میں بھی چھ افراد ٹھونسے گئے جن میں سے ایک لڑکا دم گھٹنے سے ہلاک ہو گیا تھا۔
اُن کے مطابق "راستہ دشوار گزار تھا اور راستے میں ایسی دشواریاں آئیں کہ روح کانپ جاتی ہے۔ چھ سات بار میں خود پہاڑ سے گرا تو مجھے میرے گروپ والے اٹھانے کو تیار نہیں تھے۔"
انہوں نے بتایا کہ "ہمارا 255 افراد کا گروپ تھا۔ ہم نے ڈنکی لگائی اور جہاں پہنچنا تھا وہاں پہنچتے پہنچتے 25 دن لگ گئے تھے۔ اس دوران ہم جوہڑوں کا پانی پینے پر مجبور تھے، ہم نے جنگلوں پہاڑوں میں انسانوں کے ڈھانچے دیکھے جن کے قریب بیگ اور جوتے پڑے ہوئے تھے۔"
محمد نصیر کے مطابق سخت گرمیوں میں دن بھر وہ پہاڑوں میں گزارتے اور رات میں سفر کرتے۔
انہوں نے بتایا کہ ایرانی سرحد میں داخل ہوتے ہی ان کے گروپ کو اغوا کاروں نے گھیر لیا اور گروپ کے سالار اور اغوا کاروں کی جانب سے بھرپور فائرنگ کے بعد ایرانی افواج پہنچیں جس کے بعد انہوں نے سرنڈر کر دیا اور بعد میں نصیر کو پاکستان ڈی پورٹ کر دیا گیا۔
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ تین برسوں کے دوران غیر قانونی راستوں سے ایران، ترکی اور یونان جانے والے لگ بھگ 25 ہزار نوجوان ڈی پورٹ ہو کر وطن واپس آئے ہیں۔
انسانی اسمگلروں کے خلاف ایف آئی اے کی کارروائیاں
وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے کوشاں ہے۔ ایف آئی اے نے انسانی اسمگلنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام کے لیے گوجرانوالہ اور گجرات کے اضلاع میں دو دفاتر قائم کیے ہیں۔
گوجرانوالہ میں ایف آئی اے کا دفتر تین اضلاع یعنی گوجرانوالہ، سیالکوٹ اور نارووال میں انسانی اسمگلنگ کی روک تھام اور ان اضلاع کے کیسز کو نمٹاتا ہے۔
ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے گوجرانولہ اجمل سندھو نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایک برس کے دوران گوجرانوالہ ریجنل آفس نے انسانی اسمگلنگ کے 163 مقدمات درج کر کے 199 انسانی اسمگلروں کو گرفتار کیا ہے جن میں 27 مختلف مقدمات میں اشتہاری ملزمان جب کہ تین "ریڈ بک" کے ملزمان شامل تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ایک برس کے دوران گوجرانوالہ میں 32 انسانی اسمگلروں کو جرمانے کے ساتھ چار برس قید کی سزائیں بھی مجاز عدالت نے سنائی ہیں۔
انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے پاکستان میں تین قوانین ہیں جن میں زیادہ سے زیادہ سزا 14 برس قید ہے۔ ان میں امیگریشن آرڈیننس 1979 اور اس کے بعد 2018 میں منظور ہونے والے دو قوانین شامل ہیں۔
ایف آئی اے کی ویب سائٹ پر بھی انسانی اسمگلنگ کے انتہائی مطلوب افراد کا ریکارڈ موجود ہے۔
انسانی اسمگلروں کے ناموں پر مشتمل ایف آئی اے "ریڈ بک" جاری کرتا ہے جس میں اُن انسانی اسمگلروں کا ریکارڈ شامل کیا جاتا ہے جن کے خلاف پاکستان سمیت دوسرے ممالک سے شکایات موصول ہوتی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ریڈ بک میں اس وقت 112 انتہائی مطلوب انسانی اسمگلروں کا ڈیٹا موجود ہے جن میں سے 54 کا تعلق وسطی پنجاب کے اضلاع سے ہے۔ ان میں 16 ملزمان ایسے ہیں جن کے کوائف نئی لسٹ میں شامل کیے گئے ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نئے کیس رپورٹ ہو رہے ہیں۔
گزشتہ برس ریڈ بک میں شامل صرف نو انسانی اسمگلروں کو گرفتار کیا جاسکا جن میں سے چھ کا تعلق پنجاب اور تین کا تعلق اسلام آباد سے تھا۔
مقامی صحافی محسن خالد گزشتہ کئی برسوں سے، انسانی اسمگلنگ کے واقعات پر تحقیقاتی رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ریڈ بک میں شامل انسانی اسمگلروں کے نیٹ ورک بہت مضبوط ہیں۔ اُن کے مطابق گوجرانوالہ، سیالکوٹ، گجرات اور منڈی بہاؤالدین انسانی اسمگلنگ کے گڑھ سمجھے جاتے ہیں۔
محسن خالد کا کہنا ہے کہ انسانی اسمگلر لڑکوں کو پاکستان سے تفتان بارڈر، تفتان سے ترکی اور ترکی سے یونان لے جاتے ہیں اور وہیں راستے میں زیادہ اموات ہوتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ 1967 میں منگلا ڈیم بنا اور میرپور کے قریب زمینیں ایکوائیر یا حاصل کی گئیں تو لوگوں کو زمینوں کے بدلے انگلینڈ کے ویزے دیے گئے اور وہاں جا کران لوگوں نے بہت پیسہ کمایا جس سے پاکستان میں جائیدادیں بنائیں۔ مقامی لوگوں نے محسوس کیا کہ ترقی کرنے اور پیسہ کمانے کا سب سے اہم یہی ہے کہ آپ کسی نہ کسی طریقے سے یورپ پہنچ جائیں۔