اطلاعات کے مطابق، پاکستان اور ایران کی سرحد بند ہونے کے ایک ماہ کے دوران چار پاکستانی مزدور بھوک اور پیاس سے ہلاک ہو چکے ہیں۔
صوبہ بلوچستان کے ضلع ’کیچ‘ میں پاک ایران سرحد کو حکام نے ’جالگی‘ کے مقام پر گزشتہ ایک ماہ سے بند کر رکھا ہے۔ اس علاقے سے بڑی تعداد میں ایرانی گاڑیوں کے ذریعے تیل اسمگل کیا جاتا ہے۔
سرحد کی بندش کے باعث جالگی کے مقام پر سیکڑوں کی تعداد میں تیل کا کاروبار کرنے والے ڈرائیور اور مزدور پھنس گئے ہیں۔
ضلع کیچ کی ٹریڈ ایکشن کمیٹی کے ترجمان داد جان نے بتایا کہ ایک مہینے سے جالگی کے مقام پر پاک ایران سرحد کو فرنٹئیر کور نے بند کر رکھا ہے۔ یہاں ایران سے تیل کی اسمگلنگ کرنے والی گاڑیوں کو روکا گیا ہے۔
یاد رہے کہ پاکستانی حکام کی جانب سے ایرانی تیل کی غیر قانونی ترسیل کے عمل کو روکنے کے لیے ایرانی بارڈر کو بند کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
مبینہ طور پر ہلاک ہونے والے مزدور کون ہیں؟
کیچ کی ٹریڈ ایکشن کمیٹی کے ترجمان داد جان کا کہنا ہے کہ چار روز کے دوران جالگی بارڈر پر پھنسے چار ڈرائیور مبینہ طور پر بھوک پیاس کی وجہ سے ہلاک ہو گئے ہیں۔
داد جان کے بقول "بارڈر بند ہونے کی وجہ سے مزدور طبقہ خودکشی کرنے پر مجبور ہوگیا ہے کیوں کہ ایران سے تیل اور دیگر سامان کی تجارت کے علاوہ ان کے پاس کوئی دوسرا روزگار نہیں ہے۔"
داد جان کے مطابق تیل کا کاروبار کرنے والے ایک ایسے ہی ڈرائیور فضل سبزل بھی 15 روز تک بارڈر پر پھنسے رہے اور بعد میں پانی اور خوراک نہ ملنے کی وجہ سے وہ بارڈر پر ہی ہلاک ہو گئے۔
بارڈر بندش کی وجہ سے مبینہ طور پر بھوک اور پیاس کے باعث ہلاک ہونے والے دیگر ڈرائیورز میں ایک کا نام بخش اللہ بتایا جاتا ہے جو ضلع کیچ کے علاقے 'دشت' کا رہنے والا تھا۔
ہلاک ہونے والوں میں ایک ڈرائیور سرور کا تعلق ایران سے بتایا جاتا ہے جب کہ چوتھے شخص کی شناخت ابھی تک نہیں ہو سکی ہے۔
جالگی سرحد پر چار ڈرائیوروں کی ہلاکت کے حوالے سے تاحال سرکاری سطح پر تصدیق نہیں ہو سکی۔
اس سلسلے میں ڈپٹی کمشنر کیچ سے بھی بار بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی مگر ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
’بارڈر سے کاروبار کے علاوہ روزگار نہیں‘
ضلع کیچ سے تعلق رکھنے والے ایک مقامی صحافی ماجد بلوچ نے بارڈر کی بندش سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کے حوالے سے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 20 دن سے کیچ میں جالگی کے مقام پر بارڈر مکمل طور پر بند ہے جس کی وجہ سے ایران اور پاکستان دونوں جانب ہزاروں کی تعداد میں افراد پھنسے ہوئے ہیں۔
صحافی ماجد بلوچ کا کہنا ہے کہ مکران کے سرحدی علاقوں میں بارڈر کے ذریعے کاروبار کرنے کے علاوہ مقامی لوگوں کے پاس کوئی روزگار نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ تیل کے علاوہ مکران ڈویژن کے لیے کھانے پینے کی اشیا اور دیگر ضروری سامان بھی بارڈر کے ذریعے ایران سے لایا جاتا ہے۔
سرحد کی دونوں جانب سیکڑوں گاڑیاں
واضح رہے کہ اطلاعات کے مطابق جالگی سرحد تاحال بند ہے جس کی وجہ سے سرحد کے دونوں جانب سیکڑوں گاڑیوں میں ہزاروں ڈرائیور اور مزدور تاحال پھنسے ہیں اور ان کے پاس راشن اور پینے کے صاف پانی کی شدید قلت ہے۔
بارڈر پر کاروبار کرنے والے افراد نے حکومت سے وہاں پھنسے مزدوروں کو فوراً نکالنے اور بارڈر کو تیل اور دیگر کاروبار کے لیے کھولنے کا مطالبہ کیا ہے۔
قانونی بارڈر ٹریڈ کا منصوبہ
دوسری جانب حکومتِ بلوچستان کے ترجمان لیاقت شاہوانی نے گزشتہ روز سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر مکران میں پھنسے مزدوروں کے حوالے سے ایک بیان میں کہا ہے کہ "پاک ایران بارڈر کی بندش سے پیدا ہونے والی صورت حال اور لوگوں کی تکلیف کا احساس ہے۔ اس معاملے کو بہت جلد وفاقی حکومت کے ساتھ اٹھایا جائے گا تاکہ مسئلے کا حل نکالا جا سکے۔"
ادھر پاکستان کے سرکاری خبر رساں ادارے 'اے پی پی' کے مطابق وفاقی وزیر دفاعی پیداوار زبیدہ جلال نے کہا ہے کہ پاک ایران سرحدی علاقے کے مکینوں کو ریلیف دلانے کے لیے وزیرِاعظم پاکستان اور سدرن کمانڈ بلوچستان سے بات کی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ زعمران جالگی بارڈر پوائنٹ میں اشیائے خوردنی کی عدم دستیابی سے لوگوں کو درپیش مسائل کا ہمیں ادراک ہے، جلد لوگوں کو ریلیف دلائیں گے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ پاک ایران سرحد سے ملحقہ مقامات پر قانونی طریقے سے بارڈر ٹریڈ شروع کرانے کے لیے بارڈر مارکیٹ کے قیام کی وفاقی حکومت سے منظوری کروائی ہے اور دیگر سرحدی راہداری سے ملحقہ مقامات پر بارڈر مارکیٹ سائٹ کی نشان دہی کر دی گئی ہے۔