خان صاحب پیشیاں بھگت بھگت کر تھک تو نہیں گئے،،، عمران خان ایک لمحہ کو پیچھے مڑے اور بولے ابھی تو میرا سٹیمنا شروع ہوا ہے۔ ایک صحافی نے جب ان کی پیشیوں پر سوال کیا تو عمران خان نے برجستہ جواب دیا۔
عمران خان جوڈیشل کمپلیکس میں 10 کیسز میں پیش ہوئے جہاں چار مختلف عدالتوں میں وہ پیش ہوئے، اس کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ اور اس کے بعد نیب راول پنڈی کے دفتر پہنچ گئے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان عدالت پہنچے تو آج ان کے مختلف عدالتوں میں کئی کیسز لگے ہوئے تھے اور سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کونسا کیس کہاں لگا ہے،،، البتہ عمران خان کے وکلا تیاری میں تھے اور عمران خان کو ایک عدالت سے دوسری اور دوسری سے تیسری میں لیکر جاتے رہے۔
عمران خان کے خلاف اہم کیس توشہ خانہ فوجداری کیس تھا جس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کو جزوی ریلیف دیا۔ صبح ہائیکورٹ میں عمران خان کی پٹیشن پر جب جسٹس عامر فاروق نے allowed کہا تو سب صحافیوں نے خبر چلا دی کہ توشہ خانہ ناقابل سماعت قرار دیدیا گیا ہے،،، لیکن اسلام آباد ہائیکورٹ نے دراصل صرف ایڈیشنل سیشن جج کی طرف سے دیے گئے فیصلہ کو کالعدم قرار دیا تھا اور حکم دیا کہ عمران خان کے وکیل کے دلائل سن کر سات روز کے اندر فیصلہ کریں۔
عمران خان نیب میں اپنے خلاف 190 ملین پاؤنڈ کیس میں پہنچے تو نیب کی پوری کوشش تھی کہ عمران خان کی اس کیس میں ضمانت نہ ہوسکے۔ پراسیکیوٹر نیب مظفر عباسی نے عدالت کے سامنے کہا کہ بار بار نوٹس بھجوا دیے ہیں لیکن ہر بار تفتیش کے لیے شامل نہیں ہوتے۔ اس پر خواجہ حارث بولے کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کو ایک ہی روز بلایا ہے اور وہ بھی القادر ٹرسٹ کیس میں نہیں بلکہ توشہ خانہ کیس میں بلایا ہے۔
اس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ بشریٰ بی بی کو چار نوٹس جاری کرچکے ہیں اور پیش نہ ہونے کی وجہ یہ بتائی کہ وہ اکیلے نہیں صرف اپنے خاوند کے ساتھ آ سکتی ہیں۔ اس موقع پر خواجہ حارث نے کہا کہ نیب بلا کر چائے کافی زیادہ کرتے ہیں اور سوال کم کرتے ہیں۔
اس کے بعد کمرہ عدالت میں بشریٰ بی بی آئیں ، ان کے اردگرد پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والی دو خواتین موجود تھیں اور وہ ان کے ساتھ کمرہ عدالت میں آئیں اور صرف حاضری لگانے کے بعد عدالت نے انہیں جانے کی اجازت دیدی جس کے بعد بشریٰ بی بی دوبارہ گاڑی میں جا کر بیٹھ گئیں۔
سماعت کچھ دیر جاری رہنے کے بعد عدالت نے توشہ خانہ کیس اور القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کی 13 جولائی تک عبوری ضمانت میں توسیع کر دی۔
عمران خان کمرہ عدالت میں ہی بیٹھے رہے ۔ سماعت شروع ہونے سے پہلے جب ان سے صحافیوں نے گفتگو کی کوشش کی تو عمران خان زیادہ تر سوالات کے جواب میں خاموش رہے۔ عمران خان عام طور پر صحافیوں کے سوالوں کے جواب بہت اطمینان سے دیتے ہیں لیکن منگل کے روز زیادہ تر سوالات کے جواب میں وہ خاموش رہے۔ البتہ جب ان سے پیپلز پارٹی کے ساتھ روابط ہونے کا سوال کیا گیا تو عمران خان نے واضح الفاظ میں تردید کی اور کہا کہ نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ اس سوال پر کہ جمہوریت کے لیے نوازشریف اور دیگر کے ساتھ بیٹھیں گے، عمران خان ایک دم جیسے غصہ میں آ گئے اور بولے کونسی جمہوریت،، الیکشن کروائیں الیکشن کے بغیر کسی سے کیا بات ہو گی؟؟
Your browser doesn’t support HTML5
عمران خان کے خلاف انسداد دہشت گردی عدالت میں بھی کیسز تھے جن میں زیادہ تر اسلام آباد کے مختلف تھانوں میں ان کی سیاسی جماعت کے اجتماعات اور سڑکوں پر ہونے والی ہنگامہ آرائی کے تھے۔ ان کیسز میں عمران خان کو 10 جولائی تک ضمانت دیدی گئی۔ جب کہ احتساب عدالت کے کیسز میں انہیں 13 جولائی تک ضمانت ملی۔
ان تمام کیسز کے بعد عمران خان جوڈیشل کمپلیکس سے نکلے اور اسلام آباد کے ریڈ زون میں اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچ گئے۔ ماضی کے مقابلہ میں ان کے پارٹی ورکرز موجود نہ تھے جس کی وجہ سے گیٹ پر موجود گارڈز بھی ریلیکس نظر آئے اور سیکیورٹی پر موجود اہل کار بھی صرف عمران کے آنے جانے کے وقت ہی کھڑے ہوئے ورنہ زیادہ وقت درختوں کی چھاؤں میں بیٹھے رہے۔
جسٹس عامر فاروق کی عدالت میں عمران خان کی طرف سے درخواست دائر ہوچکی تھی لیکن ہر درخواست کے لیے بائیو میٹرک کروانا ضروری ہے لہذا بائیو میٹرک کے بعد جب وہ جسٹس عامر فاروق کی عدالت میں پہنچے تو بینچ کی تشکیل کا اعلان کر دیا گیا جہاں جسٹس عامر فاروق اور جسٹس گل حسن اونگزیب نے کوئٹہ میں وکیل کے قتل کیس میں ان کی درخواست سنی۔
اس کیس میں لطیف کھوسہ عمران خان کے وکیل تھے اور انہوں نے حفاظتی ضمانت دینے کی درخواست کی جس پر جسٹس عامر فاروق نے ان سے پوچھا کہ کوئٹہ کا موسم کیسا ہے۔ اس پر لطیف کھوسہ بولے کہ میراخیال کے اسلام آباد سے اچھا ہی ہے۔ جسٹس عامر فاروق نے لطیف کھوسہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ کھوسہ صاحب ہم سب بوڑھے ہو گئے لیکن آپ اب تک جوان ہیں۔ اس پر لطیف کھوسہ بولے سر نظر نہ لگا دیجیے گا ، جس پر عدالت میں سب ہنسنے لگے۔ جسٹس عامر فاروق نے انہیں کوئٹہ میں عدالت میں پیش ہونے کے لیے 14 روزہ حفاظتی ضمانت دیدی۔
آخر میں عمران خان کمرہ عدالت سے نکلنے لگے تو ایک صحافی نے عمران خان سے سوال کیا کہ کیا آپ کو اپنی گرفتاری کا خطرہ ہے؟؟ اس پر عمران خان بولے its like Russian roulette ، یہ کسی بھی وقت ہوسکتی ہے،آپ ان سے کیا توقع کرسکتے ہیں۔ میرے خلاف 170 کیسز ہیں اور یہ کسی بھی وقت کسی بھی کیس میں مجھے گرفتار کرسکتے ہیں۔۔۔ اس کے ساتھ ہی عمران خان سیڑھیاں اتر کر نیب راول پنڈی کی طرف روانہ ہوگئے۔