جرمنی اور جاپان کی قربت اور وزیر اعظم کا 'سلپ آف ٹنگ'

وزیر اعظم عمران خان کا دورہ ایران سوشل میڈیا اور اس کے بعد دنیا بھر کے میڈیا میں وزیر اعظم کے جرمنی اور جاپان کی سرحدیں ملانے پر تبصرے ہو رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے ایک جگہ کہا تھا کہ جرمنی اور جاپان کی سرحدیں ملتی تھیں۔

اس بیان پر سوشل میڈیا نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا اور ان کے جغرافیے پر خوب پھبتیاں کسی گئیں۔

صحافی جمشید بھگوان نے یہ ویڈیو ٹویٹ کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا جرمنی اور جاپان کی سرحدیں ملتی تھیں؟

تجزیہ نگار عامر مسعود نے لکھا ہے کہ وزیر اعظم کے دورہ ایران سے نہ صرف پاکستان اور ایران کے درمیاں دوریاں کم ہوئیں، بلکہ جاپان اور جرمنی کے درمیان بھی فاصلے ختم ہو گئے۔

گل بخاری نے لکھا ہے کہ جو دو ملک دوسری جنگ عظیم میں اتحادی تھے، اور ایک دوسرے سے ہزاروں کلومیٹر اور سات سمندر دور تھے، یعنی جرمنی اور جاپان، اُن کے بارے میں عمران خان کہتے ہیں کہ اس جنگ کے بعد آپس میں نہ لڑنے کے لیے انہوں نے آپس کی سرحد پر مشترکہ انڈسٹری لگائی۔

جب کہ مشتاق منہاس نے طنزاً لکھا ہے کہ سرحدیں بڑھانے پر جاپان اور جرمنی کا پاکستان کو خراج تحسین، یورپی اور ایشیائی ملک میں کھلبلی، یورپی یونین کا ہنگامی اجلاس طلب، معاملہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں زیر غور لانے کا امکان۔

بات یہاں تک ہی نہ رکی اور پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی اپنی ٹویٹ میں طنز کرتے ہوئے لکھا کہ ‘‘ہمارے وزیر اعظم سمجھتے ہیں کہ جرمنی اور جاپان کی سرحدیں ملتی ہیں۔ جب آکسفورڈ والے محض کرکٹ کھیلنے کی بنیاد پر داخلے دیتے ہیں تو پھر ایسا ہی نتیجہ نکلتا ہے۔’’

ایکٹوسٹ نگہت داد نے نقشے کی مدد سے دونوں ممالک کے درمیان کی سرحد واضح کی۔

وزیر اعظم کی اس تقریر کی وضاحت تحریک انصاف کے حامیوں کی جانب سے بھی کی گئی۔ کسی نے کہا کہ یہ ویڈیو ہی 'ڈاکٹرڈ' ہے، کسی نے کہا کہ وزیر اعظم کی زبان پھسل گئی۔

وزیر اعظم کے میڈیا کے لئے خصوصی مشیر افتخار درانی نے کہا کہ وزیر اعظم نے کب کہا کہ جاپان اور جرمنی ہمسائے ممالک ہیں۔ بلکہ انہوں نے کہا کہ ان دونوں ممالک نے مل کر اپنی صنعتیں لگائی ہیں۔ جسے بلاول بھٹو اور کئی دانشور سمجھ نہ پائے۔

شمع جونیجو نے شیریں مزاری کی ویڈیو شئیر کی جس میں وہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں کہہ رہی تھیں کہ یہ زبان پھسلنے کی وجہ سے ہوا۔ عمران خان جرمنی اور فرانس کہنا چاہ رہے تھے۔