پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم اور چیئرمین تحریکِ انصاف عمران خان نے توہین عدالت کیس میں نیا تحریری جواب جمع کرا دیا ہے۔
عمران خان نے بدھ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرائے گئے بیان میں کہا ہے کہ انہیں خاتون جوڈیشل مجسٹریٹ زیبا چوہدری سے متعلق غیر ارادی طور پر منہ سے نکلنے والے الفاظ پر افسوس ہے۔
عمران خان نے اپنے جواب میں عدالت سے غیرمشروط معافی نہیں مانگی تاہم ان کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد خاتون مجسٹریٹ کی دل آزاری نہیں تھا۔ وہ یقین دہانی کراتے ہیں کہ عدالت اور ججز کا احترام کرتے ہیں۔
چیئرمین تحریکِ انصاف نے کہا کہ یہ حوصلہ افزا بات ہے کہ انہیں اپنا مؤقف پیش کرنے کا موقع دیا گیا ہے۔
SEE ALSO: رپورٹر ڈائری: توہین عدالت کیس میں عمران خان نے ساری کارروائی بغور سنیاسلام آباد ہائی کورٹ نے 31 اگست کو مقدمے کی سماعت کے دوران عمران خان کو ایک ہفتے میں دوبارہ جواب جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔ عدالت جمعرات کو اس مقدمے کی دوبارہ سماعت کرے گی۔
خیال رہے کہ عمران خان نے 20 اگست کو اسلام آباد میں ایک جلسے سے خطاب کے دوران شہباز گل کا جسمانی ریمانڈ دینے والی ایڈیشنل جج زیبا چوہدری کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ "آپ تیار ہو جائیں ہم آپ کے خلاف کارروائی کریں گے۔
عمران خان نے اپنے جواب میں مزید کیا کہا؟
چیئرمین تحریکِ انصاف نے اپنے جواب میں مزید کہا کہ خاتون جج سے متعلق اپنے الفاظ پر پچھتاوے کا اظہار کرنے پر اُنہیں کوئی شرمندگی نہیں ہو گی۔ خاتون جج کے جذبات مجروح ہوئے ہیں تو اس پر اُنہیں بہت افسوس ہے۔
عمران خان نے اپنے جواب میں کہا کہ مصروف شیڈول کی وجہ سے مجھے معلوم نہیں تھا کہ شہباز گل کا معاملہ ہائی کورٹ میں زیرِ التوا ہے۔ توہینِ عدالت کی کسی مہم کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ عام آدمی کو انصاف فراہم کرنے والی ماتحت عدلیہ کا احترام کرتا ہوں۔
سابق وزیرِ اعظم نے کہا کہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی تاک میں رہنے والوں نے ان پر شدید تنقید کی۔ عدالت نے مجھے ضمنی جواب جمع کرانے کی مہلت دی اس پر بھی مخالفین نے مجھے نشانہ بنایا۔
عمران خان نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما طلال چوہدری کے توہینِ عدالت کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ طلال چوہدری کا کیس الگ نوعیت کا تھا۔ لیکن اُنہوں نے اپنے بیان پر کبھی افسوس کا اظہار نہیں کیا۔
عمران خان نے اپنے جواب میں عدالت سے استدعا کی کہ مودبانہ گزارش ہے کہ میری وضاحت قبول کی جائے اور توہینِ عدالت کا شوکاز نوٹس واپس لے لیا جائے۔ عدالتیں معافی اور تحمل کے اسلامی اصولوں کو ہمیشہ تسلیم کرتی ہیں۔عفُوو درگزراور معافی کے اسلامی اصول اس کیس پر بھی لاگو ہوں گے ۔
سابق وزیرِ اعظم نے عدالت کو یقین دلایا کہ وہ آئندہ ایسے معاملات میں انتہائی احتیاط سے کام لیں گے۔ کبھی ایسا بیان دیا نہ مستقبل میں دوں گا جو کسی زیرِ التوا مقدمے پر اثرانداز ہو۔
شہباز گل پر ہونے والے مبینہ تشدد کا تذکرہ کرتے ہوئے سابق وزیرِ اعظم نے اپنے جواب میں کہا کہ شہباز گل پر ٹارچر کی خبر میڈیا اور سوشل میڈیا پر تھی۔ سانس لینے میں مشکلات، ماسک کی بھیک مانگتے شہباز گل کے مناظر سامنے آئے جس نے ہر دل و دماغ پر اثر چھوڑا۔ پھر بھی پتا ہوتا کہ کیس زیرِ التوا ہے تو اس پر بات نہ کرتا۔