ویب ڈیسک۔ بھارت بین الاقوامی تجارت کے لیے اپنی کرنسی کے استعمال کو فروغ دینے کے اقدامات کر رہا ہے تاکہ ان ممالک میں اپنی برآمدات کو بڑھا جا سکے جنہیں ڈالر کی کمی یا مغربی پابندیوں کا سامنا ہے۔
نئی دہلی سے وائس آف امریکہ کے لیے انجنا پسریچا کی رپورٹ کے مطابق تجارتی ماہرین کا کہنا ہے کہ یوکرین پر روسی حملے کے نتیجے میں روس پر عائد ہونے والی پابندیوں کے بعد ماسکو کی جانب سے ڈالر اور یورو کی بجائے دیگر کرنسیوں کے استعمال کو دیکھتے ہوئے بھارت کو بین الاقوامی تجارت کے لیے اپنی کرنسی کو آگے بڑھانے کا خیال آیا۔
بھارت امریکہ کی زیرقیادت پابندیوں میں شامل نہیں ہوا ہے اور روس سے سستے خام تیل کی اس کی درآمدات میں پچھلے سال اضافہ ہوا ہے۔
بھارت کے سیکرٹری تجارت سنیل بارتھوال نے گزشتہ جمعہ کو ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ نئی دہلی بین الاقوامی تجارت کے لیے روپے کے استعمال کی حمایت کرے گا۔
ملک کی نئی غیر ملکی تجارتی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’’ ایسے ممالک جنہیں کرنسی کے مسائل درپیش ہیں یا جن کے پاس ڈالر کی کمی ہے یا بین الاقوامی کرنسی کی قلت ہے، تو ہم ان کے ساتھ روپے میں تجارت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس سے نہ صرف ہماری برآمدات کو فروغ ملے گا بلکہ ان ممالک کو بھی تباہی سے بچائے گا‘‘۔
بھارت ان کئی ممالک میں شامل ہے جو ایسے تجارتی طریقے تلاش کر رہے ہیں جن میں ڈالر استعمال نہ ہوتا ہو۔ یاد رہے کہ کئی عشروں سے ڈالر کا بین الاقوامی تجارت پر غلبہ ہے۔
SEE ALSO: بھارتی کشمیر میں اماراتی گروپ کی سرمایہ کاری؛ کیا حالات بدل رہے ہیں؟بھارت نے ملائیشیا کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے جس سے بھارتی روپے میں تجارت کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔
بھارتی وزارت خارجہ نے ہفتے کے روز اپنے ایک بیان میں کہا کہ اب بھارت اور ملائیشیا کے درمیان تجارت کے لیے ادائیگی دوسری کرنسیوں کے طریقہ کار کے ساتھ ساتھ بھارتی روپے میں بھی کی جا سکتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے سری لنکا اور بنگلہ دیش جیسے جنوبی ایشیائی ممالک کے ساتھ بھارت کی تجارت کو بڑھانے میں مدد مل سکتی ہے جنہیں ڈالر کی قلت کا سامنا ہے ۔یوکرین کی جنگ کے نتیجے میں تیل اور خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے ان کے زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔
بھارت اپنے بڑے تجارتی شراکت داروں کے ساتھ بھی بھارتی روپے میں تجارت کرنے کے طریقہ کار پر بات چیت کر رہا ہے جن میں تیل فراہم کرنے والے بڑے ممالک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت شامل ہیں۔
SEE ALSO: بھارت: روسی درآمدات کی ادائیگی چینی یوآن میں کرنے کی حوصلہ شکنیبھارت کو بیرونی تجارت سے کافی ڈالر نہیں ملتے کیونکہ اس کی درآمدات برآمدات سے زیادہ ہیں اور بیرونی تجارت میں اسے خسارے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
نئی دہلی میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سینٹر فار اکنامک اسٹڈیز اینڈ پلاننگ کے پروفیسر بسواجیت دھر کہتے ہیں کہ درآمدات میں اضافے سے بھارتی روپے پر دباؤ بڑھ رہا ہے اور ڈالر کے مقابلے میں اس کی قدر گھٹ رہی ہے۔اس لیے اگر آپ ڈالر کی بجائے روپے میں تجارت کرتے ہیں تو بنیادی طور پر آپ فائدے میں رہتے ہیں۔
’’ روپے میں غیرملکی تجارت کو بڑھانے کی کوششیں ابھی اپنے بہت ابتدائی مرحلے میں ہیں۔ ہمیں ابھی بہت طویل سفر کرنا ہے کیونکہ تجارت کا ایک بڑا حصہ ڈالر میں ہوتا ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ روپے میں تجارت کے فائدے اور نقصان دونوں ہیں۔ فائدہ یہ ہے کہ آپ ڈالر کے اتار چڑھاؤ سے محفوظ رہتے ہیں اور نقصان یہ ہے کہ اپنی کرنسی کی قدر گرنے سے جو تجارتی فائدہ ہوتا ہے، آپ اس سے محروم رہتے ہیں۔
’’روپے میں تجارت کے سلسلے میں ملائیشیا ایک ٹیسٹ کیس ہوگا جسے دوسرے ممالک یہ فیصلہ کرنے کے لیے دیکھیں گے کہ آیا بھارتی کرنسی میں تجارت ممکن ہے یا نہیں‘‘
بھارت نے پہلے ہی ماسکو کے ساتھ روپے اور روبل میں ادائیگی کا طریقہ کار وضع کر رکھا ہے جس کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ دوسرے ممالک اس نمونے کا مطالعہ کر کے اپنے لیے فیصلہ کر سکتے ہیں۔
SEE ALSO: جاپانی وزیرِاعظم کا دورۂ بھارت: 75 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلانگزشتہ سال جولائی میں 18 ملکوں کے بینکوں نے بھارتی بینکوں میں روپے کے اکاؤنٹ کھولے تھے جن میں ماریشس، کینیا، تنزانیہ، اسرائیل، جرمنی، عمان اور سنگاپور شامل ہیں۔
بھارت واحد ملک نہیں ہے جو تجارت کے لیے امریکی کرنسی سے ہٹ کر لین دین کی کوشش کر رہا ہے۔ چین اور روس امریکی ڈالر پر انحصار کم کرنے کی کوششوں کی قیادت کر رہے ہیں کیونکہ واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان تعلقات خراب ہو رہے ہیں اور ماسکو مغربی پابندیوں کے اثرات سے خود کو محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔
مشرقی ایشیائی ممالک بھی خطے کے اندر مقامی کرنسیوں میں تجارت کو فروغ دینے کے خواہاں ہیں۔ مرکزی بینک کے گورنرز اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی ایسوسی ایشن (آسیان) کے وزرائے خزانہ کے گزشتہ ہفتے ہونے والے اجلاس میں اس بات کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا گیا کہ مالیاتی لین دین کے لیے خطے میں مقامی کرنسیوں کے استعمال کو کیسے فروغ دیا جائے۔