بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں متحدہ عرب امارات کی ایک بڑی ریئل اسٹیٹ کمپنی کی جانب سے کثیر لاگت سے شروع ہونے والے منصوبے کو بھارتی حکومت وادی میں ’نیا آغاز‘ قرار دے رہی ہے۔ جب کہ حزبِ اختلاف کی جماعتیں براہ راست بیرونی سرمای کاری پر تحفظات کا اظہار کررہی ہیں۔
متحدہ عرب امارات کی ایک بڑی ریئل اسٹیٹ کمپنی دی ایمار گروپ نے گزشتہ دنوں سرینگر میں 10 لاکھ مربع فٹ پر پھیلے ایک شاپنگ مال کا سنگِ بنیاد رکھا ہے۔ یہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں پہلی براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری ہے۔
جموں و کشمیر کے سربراہِ انتظامیہ لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے اسے علاقےکے لیے ایک تاریخی دن قرار دیا اور کہا کہ ایمار گروپ کو سرینگر اور جموں میں آئی ٹی ٹاور تعمیر کرنے کے لیے بھی اراضی الاٹ کی گئی ہے اور ان منصوبوں پر 5 ارب روپے کی مجموعی لاگت آئے گی۔
گورنر منوج سنہا نے کہا کہ یہ جموں و کشمیر میں پہلی بلاواسطہ غیر ملکی سرمایہ کاری ہے ۔ ہم وزیرِ اعظم نریندر مودی کے جموں و کشمیر کی تعمیر و ترقی کے اولین مقصد کو آگے بڑھارہے ہیں۔
سنہا اور جموں و کشمیر کے بعض دوسرے عہدے داروں نے جنوری 2022 میں متحدہ عرب امارات میں منعقد ہونے والی کاروباری نمائش ' دبئی ایکسپو' میں شرکت کی تھی۔ اس دوراں انہوں نے ریئل اسٹیٹ، انفراسٹرکچر ، سیاحت، حفظانِ صحت، فوڈپروسیسنگ اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کے لیے مفاہمت کی نصف درجن یادداشتوں پر دستخط کیے تھے۔
ان معاہدوں کے تحت متحدہ عرب امارات کی سرکردہ کمپنیاں جموں و کشمیر میں سرمایہ کررہی ہیں۔مارچ 2022 میں سرینگر میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کی ایک چار روزہ کانفرنس ہوئی تھی۔
اس کانفرنس کو 'خلیجی ممالک کا سرمایہ کاری سربراہی اجلاس' کا نام دیا گیا تھا۔اس میں متحدہ عرب امارات کے علاوہ سعودی عرب اور ہانگ کانگ سے تعلق رکھنے والے 30 سے زائد سرمایہ کاروں اور تجارتی اداروں کے نمائندوں نے شرکت کی تھی۔
’سرمایہ کاری میں حائل رکاوٹیں دور ‘
رواں ماہ متحدہ عرب امارات کے سرمایہ کاروں کا ایک اور اجلاس سرینگر میں منعقد کیا گیا۔اس اجلاس سےخطاب کرتے ہوئے لیفٹننٹ گورنر سہنا نے کہا تھا کہ جموں و کشمیر میں بیرونی سرمایہ کاری کی راہ میں حائل رکاوٹیں بڑی حد تک دور کردی گئی ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ حالیہ برسوں میں جموں و کشمیر نے اصلاحات کے نتیجے میں متاثر کُن پیش قدمی کی ہے اور ترقی کی رفتار نے اسے سرمایہ کاری کے لیے پُرکشش بنادیا ہے۔
واضح رہے نئی دہلی نےپانچ اگست 2019 کو جموں و کشمیر کو نیم خود مختاری دلانے والی آئینِ ہند کی دفعہ370 کو منسوخ کردیا تھا اور اس کے ساتھ ہی ریاست کو دوحصوں میں تقسیم کرکے انہیں براہِ راست وفاق کے زیرِکنٹرول علاقوں میں بدل دیا تھا۔
آئینِ ہند کی دفعہ370 کے ساتھ ہی اس کی ذیلی دفعہ35 اے کو بھی منسوخ کردیا گیا تھا۔ بھارتی آئین کی ان شقوں کے تحت نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں زمین اور دوسری غیر منقولہ جائیدادیں خریدنے، سرکاری ملازمت اور حقِ رائے دہی سمیت کئی دیگر قانونی حقوق صرف جموں و کشمیر کےمستقل باشندوں کو حاصل تھے۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی کے بعد غیر مقامی افراد کو بھی شہریت کی سندیں عطا کی گئی ہیں جبکہ ترمیم شدہ اراضی قانو ن کے تحت بھارت کاکوئی بھی شہری جموں و کشمیر میں بعض شرائط کو پورا کرکے غیر منقولہ جائیداد کا مالک بن سکتا ہے۔
بھارت کی وزیرِ خزانہ نرملا سیتا رمن نے حال ہی میں نئی دہلی میں پارلیمان کو بتایا تھا کہ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد وفاقی حکومت کشمیر میں بیرونی سرمایہ کاری کے لیے "محفوظ ماحول" پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔
’نجی سرمایہ کاری میں مزید اضافہ ہوا ہے‘
گزشتہ دنوں بھارت کی وزارتِ داخلہ کی بھارتی پارلیمنٹ میں پیش کی گئی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جموں و کشمیر میں نجی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق کشمیر میں سرمایہ کاری دسمبر2022 میں 640 ارب روپے مالیت کی تھی جو بڑھ کر 660 ارب روپے تک پہنچ گئی ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا تھا کہ جموں و کشمیر میں دو برس کے لیے جاری کی گئی نئی صنعتی پالیسی کے بعد سے اب تک 129 نئے صنعتی یونٹوں نے کام شروع کردیا ہے اور 350 یونٹ پیداوار کے مرحلے تک پہنچ گئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق جموں و کشمیر میں صنعتی یونٹ قائم کرنے کی پانچ ہزار 327 تجاویز موصول ہوئی تھیں جن میں سے 1884 کے لیے زمین فراہم کی گئی ہے اور 854 کے لیے پریمئیم ادا کیا جاچکا ہے۔
سرمایہ کاری سے متعلق متضاد بیانات
لیکن بھارتی پارلیمنٹ میں گزشتہ دنوں پیش کیے گئے اعدادو شمار سرکاری عہدے داروں کے ان دعوؤں کے برعکس ہیں۔ پارلیمنٹ میں دیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ علاقے میں بیرونی سرمایہ کاری میں حالیہ برسوں کے دوران کمی ہوئی ہے۔
داخلی امور کے وزیرِ مملکت نیتا نند رائےنے پارلیمنٹ کے ایوانِ زیرین لوک سبھا میں ایک سوال کے تحریری جواب میں کہا تھا کہ جموں و کشمیر کی حکومت نے یہ اطلاع دی ہے کہ اسے640 ارب روپے کی بیرونی سرمایہ کاری کی تجاویز موصول ہوئی ہیں لیکن گزشتہ پانچ برس کے دوران جموں و کشمیر میں صرف 25 ارب روپے کی سرمایہ کاری ہوئی ہے۔
وزارتِ داخلہ کے جواب کے مطابق جموں و کشمیر میں ہونے والی مجموعی سرمایہ کاری میں سے تقریباً ساڑھے آٹھ ارب روپے 18-2017میں، کم و بیش 6 ارب روپے 19-2018میں، لگ بھگ تین ارب روپے 2019-20میں ، سوا چار ارب روپے 21-2020 میں اور 22-2021 میں تین ارب روپے سے زائد سرمایہ کاری ہوئی۔
ان اعدادو شمار کے مطابق جموں و کشمیر میں مالی سال 21-2020 میں صرف تین اعشاریہ 76 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی گئی تھی جو گذشتہ پانچ برس کے دوران علاقے میں کسی ایک مالی سال کے دوران کی گئی دوسری سب سے کم سرمایہ کاری تھی۔ جبکہ سب سے زیادہ سرمایہ کاری 18-2017 میں کی گئی ہے جو کم و بیش ساڑھے آٹھ ارب روپے بنتی ہے۔
حزبِ اختلاف کی تنقید
اعداد و شمار کے اس انکشاف کے بعد حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے رائے عامہ کو گمراہ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
سابق وزیرِ اعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ حکومتِ بھارت کے ان بلند بانگ دعوؤں کے باوجود کہ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد جموں و کشمیر میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی گئی ہے اس کی طرف سے پارلیمنٹ میں پیش کئے گئے اعداد و شمار کچھ اور ہی ثابت کرتے ہیں۔
بھارت کے قومی دھارے میں شامل جموں و کشمیر کی سب سے پرانی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس نے بھی حکومت کو شدید نکتہ چینی کا ہدف بنایا تھا۔ پارٹی کے ترجمانِ اعلیٰ تنویر صادق نے کہا تھا کہ جموں و کشمیر میں دفعہ370 کی منسوخی کے بعد بھاری سرمایہ کاری کا پول خود حکومت نے کھول دیا ہے۔
ان کے مطابق یہ واضح ہوگیا ہے کہ 5اگست 2019 کو کیے گئے اقدامات نے کشمیر میں کسی بامعنی سرمایہ کاری کے لیے راہ ہموار نہیں کی ہے۔
اس تنقید کے جواب میں حکومت کا کہنا ہے کہ وہ جموں و کشمیر میں بے روزگاری کے مسئلے سے غافل نہیں اور سمجھتی ہے کہ علاقے میں سرمایہ کاری سے اس مسئلے کو حل کرنے میں بڑی مدد ملے گی۔
تاجر انجمنوں کا خیر مقدم
جموں و کشمیر میں براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری پر حکومتی اعداد و شمار میں تضاد اپنی جگہ تاہم مقامی تاجر تنطمیں بیرونی سرمایہ کاری کی خواہاں ہیں۔
جموں و کشمیر ہوٹلئرس کلب کے سیکریٹری جنرل طارق گانی بے ڈبہ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم سے کہا جارہا ہے بیرونی سرمایہ کاری اور اس سے جڑے منصوبے مکمل ہونے پر مقامی نوجوانوں کے لیے روزگار کے بہترین مواقع پیدا ہوں گے۔ اس کےعلاوہ صنعتی اور زرعی شعبوں میں انقلابی تبدیلیاں آئیں گی اور ان وابستہ افراد کے لیے خوش حالی کاایک نیا باب کھلے گا۔ ہمیں امیدہے کہ ایسا ہی ہوگا۔
طارق بے ڈبہ نے کہا کہ سرینگر میں ایمار گروپ کے میگا مال کے افتتاح کے موقعے پر کہا گیا ہے کہ اس سے 13 ہزار افراد کو روزگار فراہم ہوگا۔ اگر آٹھ ہزارافراد کے لیے ہی یہ روزی روٹی کا ذریعہ بنتا ہے تو ہمیں خوشی ہوگی۔
کشمیر ایوانِ صنعت و تجارت نےسرینگر میں بیرونی سرمایہ کاروں کی آمد اور ان کی طرف سے وادی میں تجارتی اور صنعتی مراکز قائم کرنےپر آمادگی کا خیر مقدم کیا تھا۔
حزبِ اختلاف کے خدشات
تاہم بعض سیاسی اور عوامی حلقے حکومت کی بیرونی سرمایہ کاری کے لیے کی جانے والی کوششوں کو شک و شبہے کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ 5اگست 2019کے بعد جموں و کشمیر میں ایک کے بعد دوسرا قانون نافذ کرنے اور ڈومیسائل اور اراضی سے متعلق قوانین میں رد وبدل کرنے کا مقصد مقامی آبادی کو بے اختیار کرنا ہے۔
حزبِ اختلاف کی دو بڑی بھارت نواز علاقائی جماعتیں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اوراستصواب رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کا اتحاد حریت کانفرنس کا الزام ہے کہ ان اقدامات کا مقصد مسلم اکثریتی ریاست کی آبادی کو تبدیل کرنا ہے۔
پاکستان بھی اس سلسلے میں تحفظات کا اظہار کرتا رہا ہے۔ اس کا موقف ہے کہ ماضی میں بھارت نے جموں و کشمیر میں کسی بھی بین الاقوامی موجودگی کی یہ کہہ کر مخالفت کی تھی کہ یہ اقوامِ متحدہ کی جانب سے تسلیم شدہ ایک متنازع علاقہ ہے۔
حکومت کا مؤقف
لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی تنقید اور خدشات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگ منفی سوچ رکھتے ہیں۔ اس لیے وہ حکومت کی پالیسیوں اور اقدامات پر تنقید برائے تنقید کرتے رہتے ہیں۔
انہوں نے سری نگر میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے حکومت کے اس دعوے کا اعادہ کیا کہ 5 اگست 2019 کے بعد جموں و کشمیر میں "انقلابی تبدیلیاں " رونما ہورہی ہیں اور علاقے میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری اس کی ایک واضح مثال ہے۔
انہوں نے کہا: "ایمارگروپ کی طرف سے میگا مال تعمیر کرنا محض شروعات ہیں"۔
پاکستان کے اعتراضات کے بارے میں نئی دہلی اور سرینگر میں حکومتوں کا یہ یکسان موقف ہے کہ کشمیر میں پاکستان کی کوئی جائزمسلمہ حیثیت نہیں ہے اور اسےمداخلت کا حق نہیں ہے۔
ادھر ماحولیات کے ماہرین نے حکومت پر زور دیاہے کہ وہ نئی صنعتی پالیسی اور بیرونی سرمایہ کاری کے منصوبوں پر عمل درآمد کرتے ہوئے یہ بات یقینی بنایا جائے کہ ان سے جنت نظیر کہلانے والی وادیٔ کشمیر کی ماحولیات پر کوئی منفی اثر نہ پڑے۔