رسائی کے لنکس

جاپانی وزیرِاعظم کا دورۂ بھارت: 75 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان


جاپان کے وزیرِاعظم فومیوکِشیدہ نے پیر کو نئی دہلی کا دورہ کیا اور اپنے بھارتی ہم منصب نریندر مودی سے روس کی یوکرین میں جنگ، انڈو پیسفک کی صورتِ حال اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا ۔

انہوں نے وزیرِاعظم نریندر مودی سے ملاقات کے علاوہ ایک لیکچر بھی دیا۔ انہوں نے روس کی یوکرین میں جنگ اور باہمی اشتراک کو فروغ دینے کے علاوہ کھلے اور آزاد انڈو پیسفک کو یقینی بنانے کے سلسلے میں اپنی حکومت کی پالیسی کا اعلان کیا۔

انہوں نے کھلے اور آزاد انڈوپیسفک کے لیے 75 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان بھی کیا۔

جاپان کی وزارتِ خارجہ کے ایک بیان کے مطابق فومیوکِشیدہ نے ظہرانے پر یوکرین میں جاری روس کی جنگ کے تناظر میں نریندر مودی سے کہا کہ ایشیا سمیت دنیا کے کسی بھی حصے میں طاقت کے بل بوتے پر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور موجودہ صورتِ حال کو تبدیل کرنے کی اجازت کسی کو بھی نہیں دی جانی چاہیے۔

مودی سے مذاکرات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جاپان کے وزیرِاعظم نے روسی حملے کی مذمت کی اور کہا کہ وہ اس حملے کو جتنی جلدی ممکن ہو روکنا چاہتے ہیں۔اس مقصد کے حصول کے لیے گلوبل ساؤتھ سمیت عالمی برادری کو آواز بلند کرنی چاہیے۔ انہوں نے اپنی 35 منٹ کی تقریر کے دوران سات مرتبہ یوکرین پر روسی حملے کا ذکر کیا۔

واضح رہے کہ گلوبل ساؤتھ کی اصطلاح ترقی پذیر ملکوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔

جاپان، امریکہ اور مغربی ممالک کی طرح روس کے حملے کی مذمت اور مخالفت کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔

اس کے برعکس بھارت نے ایک سال سے زائد عرصے سے جاری اس جنگ میں روسی جارحیت کی مذمت نہیں کی۔ اسی طرح جب بھی کسی بھی عالمی فورم پر روسی جارحیت کی مذمت کے لیے کوئی قرار داد پیش کی گئی تو بھارت نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔

بھارت نے روس پر امریکی اور مغربی ممالک کی پابندیوں کے باوجود جنگ کے بعد روس سے تیل کی درآمد میں بہت زیادہ اضافہ کیا ہے۔

ادھر جاپان کا دعویٰ ہے کہ فومیوکِشیدہ اور نریندر مودی نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ان پر ،قانون کی بنیاد پر عالمی نظام کی بحالی اور استحکام کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اہم ہے کہ گروپ سات (جی سیون) اور گروپ بیس (جی 20) کے اجلاسوں میں اس کی وضاحت کی جائے۔

خیال رہے کہ بھارت اس وقت جی 20 کا صدر ہے۔ روس اور چین بھی اس کے رکن ہیں۔ ان دونوں ممالک نے جی 20 کے پلیٹ فارم سے روسی جارحیت کی مجوزہ مذمت کی شدید مخالفت کی ہے۔

اسی وجہ سے رواں ماہ کے اوائل میں بنگلور اور دہلی میں منعقدہ اجلاس میں یوکرین کے معاملے پر کوئی اتفاقِ رائے قائم نہیں ہوسکا تھا۔

بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی نے مذاکرات کے بعد اپنے بیان میں روس اور چین کا ذکر نہیں کیا۔ البتہ انہوں نے کہا کہ بھارت اور جاپان کے درمیان اسٹرٹیجک اور عالمی اشتراک جمہوری اقدار اور بین الاقوامی قوانین کے احترام پر مبنی ہے۔

ان کے بقول اس شراکت داری کا استحکام نہ صرف دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے بلکہ یہ انڈو پیسیفک خطے میں امن، خوشحالی اور استحکام کو فروغ دیتا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی وزارتِ خارجہ نے جی سیون اور جی20 کے پلیٹ فارم پر روس کے معاملے پر مشترکہ بنیاد تلاش کرنے کی جاپان کی کوششوں پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

جاپان ترقی یافتہ معیشتوں کے گروپ جی سیون کا صدر ہے۔ اس نے یوکرین کی حمایت کا اعادہ کیا ۔ انہوں نے رواں سال مئی میں جاپان کے شہر ہیروشیما میں منعقد ہونے والے جی سیون کے اجلاس میں شرکت کے لیے اپنے بھارتی ہم منصب کو مدعو کیا ہے۔

مبصرین کے مطابق انڈوپیسیفک کے لیے 75 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے اعلان کا مقصد بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت خطے میں چین کے بڑھتے اثرات کو کم کرنا ہے۔

ان کے بقول اگرچہ جاپان کے وزیرِاعظم نے اپنی پالیسی تقریر میں چین کا براہ راست نام نہیں لیا۔ لیکن یہ واضح کیا کہ یہ سرمایہ کاری ترقی پذیر ملکوں کی امداد، بحری سلامتی کو یقینی بنانے میں مدد اور رابطہ کاری میں تعاون کے لیے ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق جاپانی وزیر اعظم کے اس دورے کے دو مقاصد تھے۔ ایک یوکرین کے مسئلے پر بھارت کے مؤقف میں لچک پیدا کرنے کی کوشش اور دوسرا انڈو پیسیفک میں چین کے بڑھتے اثرات کو روکنے کے لیے اقدام اٹھانا۔

تجزیہ کاروں کے بقول فومیو کِشیدہ نے کوشش کی کہ ان کے بھارتی ہم منصب روسی جارحیت کے خلاف بیان دیں۔ لیکن بھارت کے سابقہ مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

سینئر تجزیہ کار شیخ منظور احمد کا کہنا ہے کہ ان کے نزدیک اس دورے کا بڑا مقصد انڈو پیسیفک میں چین کے اثرات کو کم کرنے پر تبادلہ خیال کرنا تھا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ جاپان کی جانب سے انڈوپیسیفک کے لیے 75 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے اعلان کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ان کے بقول چین، بھارت اور جاپان دونوں کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ بھارت کے ساتھ چین کا سرحدی تنازع ہے اور جاپان کے ساتھ بحیرہ جنوبی چین میں چین کے اثرات اور دیگر معاملات ہیں۔

ان کے بقول بھارت اور جاپان چار ملکوں کے گروپ 'کواڈ' کے رکن ہیں اور چین کے بڑھتے اثرات کو روکنے کے سلسلے میں دونوں کے درمیان کافی گفتگو ہوئی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ جاپان نے یوکرین کے سلسلے میں بھارت کے مؤقف کو تبدیل کرانے کی کوشش کی لیکن بھارت اس معاملے میں اپنی غیر جانبدارانہ پالیسی پر قائم ہے۔

انہوں نے حالیہ دنوں میں پیش آئے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ واقعات اس بات کی جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ جنگ جلد بند ہونے والی نہیں ہے۔ وہ بعض دیگر مبصرین کے اس خیال سے متفق ہیں کہ ان حالات میں بھارت کے لیے اپنے مؤقف پر قائم رہنا ایک مشکل امر ہے۔

کیا چین کی وجہ سے بھارت اور امریکہ قریب آ رہے ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:14 0:00

خیال رہے کہ حالیہ دنوں میں تین بڑے واقعات پیش آئے ہیں جن میں انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کی جانب سے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے خلاف مبینہ جنگی جرائم کے سلسلے میں وارنٹ گرفتاری جاری کرنا، پوٹن کا یوکرین کے مقبوضہ علاقے ماریوپول کا دورہ اور چینی صد شی جن پنگ کا ماسکو کا دورہ شامل ہیں۔

ان کے بقول روس سے بھارت کے دیرینہ اور دوستانہ تعلقات ہیں اور بھارت روس سے سب سے زیادہ ہتھیار خریدتا ہےلیکن اگر چین بھی اس جنگ میں ملوث ہوجاتا ہے تو بھارت اور روس کے تعلقات پر اثر پڑ سکتا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق انڈوپیسیفک میں امریکہ کی جانب سے چینی اثرات کو روکنے کی کوشش کا جواب شی جن پنگ اس جنگ میں روس کی بھرپور حمایت سے دینا چاہتےے ہیں۔ شی جن پنگ نے ماسکو کا دورہ کرکے امریکہ اور مغرب کو یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ روس کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔

ان کے بقول بھارت پر یہ دباؤ ہے کہ وہ بڑی عالمی جمہوریتوں اور توانائی اور ہتھیار سپلائی کرنے والے ملک روس میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے۔لیکن بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے بیانات سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ بھارت اس دباؤ کے آگے جھکنے والا نہیں ہے۔

ادھر جاپانی وزیرِاعظم فومیو کِشیدہ نریندر مودی سے ملاقات کے بعد منگل کو یوکرین کے دارالحکومت کیف روانہ ہوگئے ہیں جہاں وہ یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنکسی سے ملاقات کریں گے۔

واضح رہے کہ وہ جی سیون کے واحد رہنما ہیں جنہوں نے یوکرین میں روس کی جنگ شروع ہونے کے بعد یوکرین کا دورہ نہیں کیا تھا۔ ان پر اس دورے کے لیے دباؤ تھا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG