روس کی سرکاری خبر رساں ایجنسی تاس کے مطابق دوسرے ممالک کے علاوہ چین اور بھارت بھی روس کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقوں میں حصّہ لے رہے ہیں۔ یہ مشقیں روس کے مشرق میں جمعرات سے شروع ہو رہی ہیں۔
بھارت پہلے بھی روس کے ساتھ مل کرجنگی مشقیں کرتا رہا ہے، ستمبر2021 میں زاپاڈ نامی مشق اور پھر 2022 میں ووسٹک نامی مشقیں ان کی تازہ ترین مثالیں ہیں۔ اس سال ہونے والی فوجی مشقیں اس دوران ہوئیں، جب روس یوکرین کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کر چکا تھا اورامریکہ بھارت کے سٹریٹجک شراکت داری بھی مزید مستحکم ہوئی۔
نئی دہلی میں آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے اعزازی فیلومنوج جوشی کا خیال ہے کہ "روس میں مشقوں میں بھارت کی شرکت غیرمعمولی نہیں ہے، لیکن اس باروہ اپنے سیاسی نقطہ نظرکا برملا اظہار کر رہا ہے۔ نئی دہلی اس بات پر زور دے رہا ہے کہ وہ یوکرین کے بحران کے تناظر میں اپنےآزادانہ موقف پرقائم رہتے ہوئےامریکہ اورروس کےدرمیان غیر جانبدار رہے گا۔"
بھارت نے اب تک یوکرین پرروس کے حملے کی براہ راست مذمت کرنے سے گریز کیا ہے اور ماسکو کے خلاف مغربی پابندیوں میں شامل نہیں ہوا ہے۔ اس سال روس سے اس کی تیل کی درآمدا ت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے کیونکہ وہ روس کی جانب سے دی گئی چھوٹ کا فائدہ اٹھارہا ہے۔
بھارت نے اپنی تیل کی خریداری کا اس موقف کے ساتھ دفاع کیا ہے کہ بھارت جیسا ترقی پذیر ملک توانائی کی قلّت کا شکار ہے۔بھارت کے وزیرخارجہ سبرامنیم جے شنکر نےاس ماہ کے شروع میں بنکاک میں کہا تھا کہ ’’ہم اپنے مفادات کے بارے میں ہمیشہ دیانت دار رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں فی کس آمدنی دو ہزار ڈالر ہے۔ یہ وہ لوگ نہیں ہیں جوتوانائی کی زیادہ قیمتیں برداشت کر سکتے ہیں۔"
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بھارت اس وقت اسرائیل اورامریکہ سمیت دیگرممالک سے ہتھیار خرید رہا ہے لیکن اس کے موجودہ ہتھیاروں کا زیادہ تر حصہ روسی ہے۔
بیشترتجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کا روس سے مکمل ترک تعلق کا کوئی فوری امکان نہیں ہے۔
جوشی نے اس حوالے سے یہ کہا کہ’’دفاع کے حوالے سے ماسکو کے ساتھ نئی دہلی کے تعلقات اب بھی اہم ہیں اوریوکرین کے بحران میں اس کا در اصل کوئی براہ راست کردار نہیں ہے،اگر روس کے ساتھ تعلقات کو برقرار رکھ کر ہمارے قومی مفاد کا بہتر تحفظ ہوتا ہے تو ہم ایسا ہی کریں گے - یہی بھارت کا سرکاری موقف ہے۔"
فی الحال، ایسا لگتا ہے کہ واشنگٹن نےبھارت کے موقف کوقبول کر لیا ہے۔ اس ماہ کے شروع میں ووسٹک فوجی مشقوں میں ہندوستان کی شرکت کے بارے میں جب امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس سے سوال کیا گیا تو جواب میں انہوں نے کہا کہ امریکہ تسلیم کرتا ہے کہ کسی ملک کی خارجہ پالیسی کو ازسرنو تبدیل کرنا ایک طویل مدتی چیلنج ہوتا ہے۔
تاہم، اس بارے میں یہ سوال موجود ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان گہرے تناؤ کے ماحول میں بھارت کب تک درمیانی پالیسی پرچل سکے گا ۔
واشنگٹن میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ امریکہ ایک طویل مدتی طریقہ اختیار کر رہا ہے، یہ نئی دہلی کو باورکرانے کی کوشش کرتا رہے گا کہ ماسکو کے ساتھ سیکورٹی کے شعبے میں بھارت شراکت داری نا قابل قبول ہے۔
SEE ALSO: بھارت، روس سے تیل کی درآمد کم کر کے سعودی عرب سے کیوں بڑھا رہا ہے؟ولسن سینٹر میں ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین کا کہنا کہ "واشنگٹن کو ماسکو کے ساتھ نئی دہلی کی پائیدار سیکیورٹی شراکت داری کے بارے میں یقیناً تشویش ہے۔ آنے والے مہینوں میں، ہم توقع کر سکتے ہیں کہ واشنگٹن نئی دہلی کو یہ بتائے گا کہ مستقبل میں روس معاشی طورپر اتنا مضبوط نہیں رہے گا کہ وہ بھارت کوہتھیاروں کی ترسیل اوربرآمدات کوجاری رکھ سکے۔
بھارت اورچین کے درمیان کشیدہ تعلقات کےباوجود ان مشترکہ مشقوں میں شریک ہونا روس کے نقطہ نظر سے خاصا اہم ہے۔ دونوں بڑی ایشیائی معیشتوں کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے یہ روس کی کوششوں کی نشاندہی کرتا ہے۔
ساؤتھ ایشین اینڈ انڈو پیسیفک افیئرز کے اسٹاک ہوم سینٹر کے سربراہ جگن ناتھ پانڈا کا کہنا ہے کہ بھارت کے ساتھ اپنی روایتی شراکت داری اورچین کے ساتھ نظریاتی دوستی کی وجہ سے ماسکو مغرب کے خلاف "یوریشیائی اتحاد" کو یقینی بنانے کی امید کر رہا ہے۔
پانڈا نے کہا، "روس کی اس پالیسی نے یوکرین کے بحران میں اس کی خاصی مدد کی ہے، کیونکہ دونوں ممالک نے روسی اقدامات کی مذمت کرنے سے گریز کیا ہے۔"