|
بھارت کے لیے مشرقِ وسطیٰ ایک ایسا اہم خطہ ہے جہاں تیزی سے بدلتی صورتِ حال نئی دہلی کی حکومت نظرانداز نہیں کر سکتی۔ مبصرین کے مطابق بھارت کے مشرقِ وسطیٰ میں مفادات ہیں اور اگر اس خطے میں غیر یقینی حالات پیدا ہوئے تو اس کا اثر بھارت پر بھی پڑ سکتا ہے۔
گزشتہ ایک عشرے کے دوران بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے مشرقِ وسطیٰ کے ملکوں کے ساتھ نہ صرف سفارتی تعلقات کو نئی جہت دینے کی کامیاب کوشش کی ہے بلکہ انہوں نے خطے کے حکمرانوں کے ساتھ ذاتی تعلقات بھی استوار کیے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جب ایران نے دمشق میں اپنے سفارت خانے پر اسرائیلی حملے کا جواب دیا تو بھارت نے شدید تشویش کا اظہار کیا تھا۔
ایرانی جوابی حملے کے بعد بھارتی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان کہا تھا کہ "ہم اسرائیل اور ایران کے درمیان بڑھتی دشمنی پر انتہائی فکر مند ہیں۔ اس سے خطے میں امن و سلامتی کو خطرہ ہے۔"
بھارتی وزارتِ خارجہ نے دونوں ملکوں سے تحمل سے کام لینے اور مذاکرات و سفارت کاری سے کشیدگی کو دور کرنے کی اپیل کی تھی۔
بھارتی وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے بھی دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ سے ٹیلی فون پر گفتگو کی اور کشیدہ صورتِ حال پر تبادلہ خیال کیا۔
SEE ALSO: ایران کے حملے کا جواب دیں گے: اسرائیلی فوجی سربراہتجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر فلسطینی عسکری تنظیم حماس کے حملے کے بعد بھارت کے ردِ عمل اور اسرائیل پر ایران کے حملے کے بعد کے ردِ عمل میں کافی فرق ہے۔
اول الذکر واقعہ میں وزیرِ اعظم نریندر مودی نے حماس کے حملے کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے اسرائیل کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا تھا۔ تاہم ایران کے حملے پر نئی دہلی کا ردِ عمل محتاط ہے۔
خارجہ امور کے سینئر تجزیہ کار کلول بھٹاچارجی کا کہنا ہے کہ ایران اسرائیل جنگ کی صورت میں بھارت نہ تو کسی ایک کی حمایت کر سکتا ہے اور نہ ہی مخالفت۔ بھارت کے دونوں ملکوں سے اہم تعلقات ہیں اور وہ ان میں سے کسی ایک کی حمایت یا مخالفت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
'جنگ ہوئی تو ترسیلاتِ زر رک جائے گی'
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کلول بھٹاچارجی نے کہا کہ خلیجی ممالک میں بھارت کے 70 لاکھ افراد کام کرتے ہیں جو سالانہ 90 بلین ڈالر سے زیادہ زرِمبادلہ بھارت بھیجتے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کی صورت میں بھارتی ورکرز سب سے زیادہ متاثر ہوں گے اور زرِ مبادلہ کی ترسیل رک جائے گی جس کا اثر نئی دہلی کی معیشت پر بھی پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل فلسطینی تنازعہ تاریخی ہے اور بھارت اسے اسی تناظر میں دیکھتا ہے۔ اگر ایران اسرائیل جنگ ہوئی تو بھارت ہر حال میں متاثر ہوگا۔
خارجہ امور کے سینئر تجزیہ کار اوما شنکر سنگھ کہتے ہیں کہ بھارت کے اسرائیل کے ساتھ اسٹرٹیجک تعلقات ہیں جب کہ ایران کے ساتھ تاریخی رشتہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت اور اسرائیل کے درمیان عشروں سے دفاع اور ٹیکنالوجی سمیت متعدد شعبوں میں تعاون ہے اور اسرائیل بھارت کو سب سے زیادہ اسلحہ سپلائی کرتا ہے جب کہ وزیرِ اعظم مودی 2018 میں اسرائیل کا دورہ کرنے والے پہلے بھارتی وزیرِ اعظم تھے اور اسرائیلی وزیِر اعظم بن یامین نیتن یاہو سے ان کے دوستانہ تعلقات ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے بقول، ایران پر متنازع جوہری پروگرام کی وجہ سے پابندی عائد ہونے سے قبل تک وہ بھارت کو تیل سپلائی کرنے والا دوسرا بڑا ملک تھا۔ گو کہ گزشتہ چار برس سے بھارت اس سے تیل خرید نہیں پا رہا لیکن دونوں ملکوں کے درمیان قریبی تعلقات ہیں۔
بھارت اور ایران نے 2002 میں ایک دفاعی معاہدہ کیا تھا جب کہ نئی دہلی نے ایران کی چابہار بندرگاہ کی تعمیر میں سرمایہ کاری بھی کی ہے۔
کلول بھٹاچارجی کے مطابق ایران نے کئی معاملات میں بھارت کی مدد کی ہے۔ وسطی ایشیائی ملکوں کے ساتھ بھارت کے رشتے ہوں یا ’انٹرنیشنل نارتھ ساؤتھ ٹرانسپورٹ کاریڈور‘ کا معاملہ، طالبان کا معاملہ ہو یا پھر سیکیورٹی و دفاعی تعلقات۔ ایران کا تعاون بھارت کے لیے بہت اہم رہا ہے۔
'بھارت کے ردِ عمل کو متوازن مؤقف کے طور پر دیکھنا چاہیے'
ایران، روس اور بھارت نے ستمبر 2000 میں کثیر رخی کاریڈور کا ماڈل قائم کیا تھا جس کا مقصد نقل و حمل کے شعبے میں تعاون کو فروغ دینا تھا۔ بعدازاں اس کاریڈور میں آذربائیجان، آرمینیا، قزاقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکیہ، یوکرین، بیلاروس، عمان، شام اور بلغاریہ کو بھی شامل کیا گیا۔
کلول بھٹاچارجی کے مطابق حماس اسرائیل جنگ کا بھی بھارت پر کچھ نہ کچھ اثر پڑ رہا ہے۔ ایئر انڈیا نے تل ابیب کے لیے اپنی پروازیں ایک بار پھر معطل کر دی ہیں۔ اگر دونوں ملکوں میں براہِ راست تعلق نہیں ہوگا تو دفاعی تعلقات پر اثر پڑے گا۔
تھنک ٹینک 'ساوتھ ایشین اسٹڈیز' کے ڈائریکٹر اور خارجہ امور کے سینئر تجزیہ کار سی راجہ موہن نے نئی دہلی کے اخبار 'انڈین ایکسپریس' کے لیے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ اسرائیل پر ایران کے حملے کے بعد بھارت کا ردِعمل اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد کے ردِعمل سے متضاد ہے۔
انہوں نے لکھا کہ ایران اور حماس کے اسرائیل پر حملے کو نان اسٹیٹ ایکٹرز کی دہشت گردی اور دو اسٹیٹ ایکٹرز کے درمیان چلی آرہی علاقائی دشمنی کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔
SEE ALSO: ایران کے اسرائیل پر حملے پر عالمی ردِعمل؛ 'تباہ کن کشیدگی' کے خدشاتان کے خیال میں اگر سات اکتوبر 2023 کے بھارت کے ردعمل کو اسرائیل کا ساتھ دینے کے طور پر دیکھا گیا تو اس کے موجودہ ردعمل کو ایک متوازن مؤقف کے طور پر اور خطے میں امن کی حمایت میں دیکھا جانا چاہیے۔
ان کے مطابق مشرق وسطیٰ کے مختلف ملکوں کے باہمی تنازعات اور ان ملکوں کے داخلی تنازعات کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ لہٰذا بھارت کو خطے کے ملکوں کے ساتھ، جن کے متضاد مفادات ہیں، تعلقات کو متوازن رکھنا ہے۔
راجہ موہن مزید کہتے ہیں کہ اسرائیل ہو یا ایران یا دیگر ملک۔ بھارت ان کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ تعاون کی بنیاد پر اپنے رشتے قائم کر رہا ہے۔ دہلی خطے میں نہ ختم ہونے والے تنازعات کے درمیان ان ملکوں سے اپنے تعلقات کو آگے لے جانے کا ہنر سیکھ رہا ہے۔
یاد رہے کہ ایران میں بھارتی ورکرز کی تعداد زیادہ نہیں ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ایران میں 4000 بھارتی تارکینِ وطن ہیں۔ جب کہ اسرائیل میں 18 ہزار بھارتی زراعت اور دیگر شعبوں میں کام کر رہے ہیں۔ صنعتی شعبے میں ان کی خاصی تعداد ہے۔ وہاں بھارتی نژاد یہودیوں کی بھی اچھی تعداد ہے۔
بھارت اور اسرائیل کے درمیان گزشتہ دنوں 1500 بھارتی ورکرز کو اسرائیل بھیجنے کا معاہدہ ہوا تھا جن میں سے دو اپریل کو 65 افراد کا پہلا وفد بھیجا گیا تھا۔ لیکن ایران اسرائیل کشیدگی کی وجہ سے اس نے دوسرا وفد روک لیا ہے۔ وہ صورت حال پر نظر رکھنے اور انتظار کرنے کو ترجیح دے رہا ہے۔
بھارت میں اسرائیل کے سفیر ناؤر گیلون نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی ورکرز کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔