چین کے ساتھ سرحد کی نگرانی، بھارت مزید سات بٹالین فوج تیار کرے گا

بھارتی حکومت نے چین کے ساتھ سرحد کی نگرانی کے لیے اگلے چند برسوں کے دوران 'انڈو تبتن بارڈر فورس' (آئی ٹی بی پی) کی مزید سات بٹالینز تیار کرنے کا اعلان کیا ہے۔

کابینہ کمیٹی برائے سلامتی امور نے بدھ کو وزیرِ اعظم نریندر مودی کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں اس کی منظوری دی ہے۔ کابینہ نے آئی ٹی بی پی کے ایک سیکٹر ہیڈ کوارٹر کے قیام کی بھی منظوری دی ہے۔

اس کے ساتھ ہی مرکزی مسلح دستوں کی نفری میں 10 فی صد کا اضافہ ہو جائے گا۔ یہ فیصلہ 2020 سے بھارت اور چین کے درمیان جاری سرحدی کشیدگی اور تعطل کے پیشِ نظر کیا گیا ہے۔

میڈیا رپورٹس میں حکومت کے ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ کابینہ کمیٹی نے جنوری 2020 میں کیے گئے اپنے ایک فیصلے کے تناظر میں یہ فیصلہ کیا ہے جس میں مزید مؤثر سرحدی نگرانی کی ضرورت کے پیشِ نظر 47 نئے بارڈر آؤٹ پوسٹ اور 12 اسٹیجنگ کیمپ بنانے کو منظوری دی گئی تھی۔

خبررساں ادارے ’اے این آئی‘ کے مطابق اگلے دو سے تین برس میں ساتوں بٹالینز اور سیکٹر ہیڈ کوارٹر کی تیاری مکمل ہو جائے گی۔

وزارت داخلہ کے ایک بیان کے مطابق ان بٹالینز اور سیکٹر ہیڈ کوارٹر کے لیے 9400 پوسٹس نکالی جائیں گی۔ اس وقت آئی ٹی بی پی کی کل نفری 88430 ہے۔ اس کے بعد ان کی تعداد 97830 ہو جائے گی۔

حکومت کے مطابق آئی ٹی بی پی کی یہ تجویز کئی برسوں سے زیرِ غور تھی۔شروع میں 12 مزید بٹالین بنانے کا خیال تھا لیکن اسے کم کرکے سات کر دیا گیا۔


واضح رہے کہ آئی ٹی بی پی کا قیام 1962 میں بھارت چین جنگ کے موقع پر کیا گیا تھا۔ اس کا کام 3488 کلومیٹر بھارت چین سرحد کی نگرانی کرنا ہے۔

'پہلی دفاعی لائن کو مضبوط بنایا جا رہا ہے'

مبصرین کے مطابق مشرقی لداخ اور اروناچل پردیش میں بھارت اور چین کی افواج کے درمیان متعدد بار تصادم ہوا ہے اور چونکہ آئی ٹی بی پی پہلی دفاعی لائن ہے لہٰذا مذکورہ فیصلے سے سیکیورٹی میں اضافہ ہوگا اور چینی افواج کو نئے مقامات پر آگے بڑھنے سے روکا جا سکے گا۔

واضح رہے کہ چینی افواج لداخ خطے میں دیپسانگ اور چارڈنگ نالہ علاقے میں کئی روایتی پوائنٹس پر بھارتی افواج کو نگرانی سے روکتی رہی ہیں۔

بین الاقوامی امور کے سینئر تجزیہ کار اسد مرزا کے مطابق جب تک پہلی دفاعی لائن کو مضبوط نہیں کیا جائے گا سیکیورٹی کو کیسے یقینی بنایا جا سکے گا۔ اسی مقصد کے تحت نئی بٹالین بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

اُن کے بقول اپریل 2020 کے بعد یہ دیکھا گیا کہ جن علاقوں میں آئی ٹی بی پی کی تعیناتی نہیں ہے وہاں چین آگے بڑھنے لگا اور نئے نئے علاقوں پر قابض ہونے لگا۔

ان کے مطابق جب دونوں ملکوں کے درمیان فلیگ میٹنگ ہوتی ہے تو اس کی دلیل ہوتی ہے کہ وہاں تو آپ کا کوئی سیکیورٹی جوان تھا ہی نہیں، وہ جگہ تو ہماری ہے۔ اس طرح وہ ایسی جگہوں کو بفر زون بنا دیتا ہے اور پھر اس سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ایک ماہ قبل نئی دہلی میں وزیر داخلہ امت شاہ کی صدارت میں ہونے والے ڈائریکٹر جنرلز آف پولیس کے اجلاس میں پیش کی جانے والی رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ لائن آف کنٹرول (ایل اے سی) پر ہماری افواج پوری طرح نگرانی نہیں رکھ پا رہی ہیں۔ ایل اے سی کے قریب کچھ علاقوں میں صورتِ حال زیادہ نازک ہے۔

ان کے بقول مذکورہ اجلاس میں پیش کی جانے والی دستاویزات میں اس بات کی نشان دہی کی گئی تھی کہ لداخ میں ایل اے سی پر بھارت نے 65 پیٹرولنگ پوائنٹس میں سے 26 پوائنٹس گنوا دیے ہیں۔

دوسرے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بھارت اور چین کی عسکری طاقت میں بہت زیادہ فرق ہے۔ چین کے مقابلے میں بھارت کی طاقت بہت کم ہے۔ سات نئی بٹالین بنا دینے سے کوئی بہت زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔

سینئر تجزیہ کار پشپ رنجن کہتے ہیں کہ چین کے پاس پانچ تھئیٹر کمانڈ ہیں جب کہ بھارت کے پاس صرف ایک ہے جب کہ امریکہ اور چین کے پا س کئی تھئیٹر کمانڈ ہیں۔

خیال رہے کہ ہنگامی حالات میں تینوں مسلح افواج کے درمیان رابطہ کاری کے تحت ایکشن لینے والے یونٹ کو تھئیٹر کمانڈ کہتے ہیں۔

پشپ رنجن کے مطابق بھارت میں صرف ایک تھئیٹر کمانڈ قائم کیا گیا ہے اور وہ بھی 2003 میں۔ اسے انڈمان نکوبار میں تیار کیا گیا تھا۔ موجودہ حکومت نے بھی جو کہ قوم پرستی کی بہت بات کرتی ہے، اسے ابھی تک قائم نہیں کیا۔

اس بارے میں وزارتِ داخلہ کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ کرونا کی وجہ سے اس بارے میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔

ر پشپ رنجن کا کہنا تھا کہ چین کا ویسٹرن کمانڈ ایل اے سی کی نگرانی کرتا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان گلوان میں ہونے والی جھڑپ کے بعد یہ کمانڈ زیادہ سرگرم ہو گیا ہے۔ چین نے بڑے پیمانے پر بنیادی ڈھانچے کی تعمیر بھی کی ہے۔



پشپ رنجن کے مطابق تبت میں چین کے 10 ایئرپورٹ ہیں جو سویلین اور عسکری دونوں مقاصد کے تحت تعمیر کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ 30 ایئرپورٹ زیر تعمیر ہیں۔ دو تین سال سے ہائی اسپیڈ ٹرین کی خدمات بھی شروع کی گئی ہیں۔ بنیادی ڈھانچے کے فروغ سے چین کے لیے متنازع علاقے میں کہیں بھی رسد پہنچانا بہت آسان ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ چین نے سیٹلائٹ اور روبوٹ کے ذریعے بھی نگرانی شروع کر دی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اتراکھنڈ سے لداخ تک جتنے بھی ایئر پورٹس ہیں وہ چینی ایئرپورٹس کی مانند معیاری نہیں ہے جس کی وجہ سے بھارت کے لیے رسد پہنچانا بہت آسان نہیں ہے۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ جو سات بٹالینز بنائی جائیں گی اس سے وہاں نگرانی کرنے و الے جوانوں کو اخلاقی طاقت ملے گی۔ لیکن اس سے چین کی تیاری کا مقابلہ نہیں کیا جا سکے گا۔

ان کے خیال میں ایل اے سی پر چین کی جانب سے جو تعیناتی ہے وہ چار لیئر یعنی چار مرحلوں پر مشتمل ہے جب کہ بھارت کی تعیناتی صرف دو مرحلوں پر مشتمل ہے۔

اسد مرزا کہتے ہیں کہ بھارت کی جانب سے بھی بنیادی ڈھانچے کی تیاری چل رہی ہے۔ کابینہ نے سرحدی مواضعات میں ’وائبرینٹ ویلیج پروگرام‘ نامی ایک منصوبہ شروع کیا ہے جس کے لیے 4800 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس میں سڑک اور دیگر بنیادی ڈھانچے کے لیے مزید 2500 کروڑ روپے دیے جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کے تحت ایل اے سی کے قریب مکانات کی تعمیر اور سویلین کی آبادی کا مقصد چینی افواج کو آگے بڑھنے سے روکنا ہے۔

حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ وہاں زراعت، مچھلی پالن اور ڈیری سے متعلق کوآپریٹیو قائم کرکے لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرے گی تاکہ مقامی آبادی روزگار کے لیے دوسری جگہ جانے پر مجبور نہ ہو۔

پشپ رنجن کے مطابق داخلی سیاست کی وجہ سے حکومت کی پوری توجہ پاکستان کی جانب ہے جب کہ بھار ت کا سب سے بڑا دشمن چین ہے اور اس سے مقابلے کی وہ تیاری نہیں کی جا رہی ہے جو ضروری ہے۔