صدارتی الیکشن سے قبل بھارتی نژاد امریکیوں کی سیاسی وابستگی میں تبدیلی

  • بھارتی نژاد امریکیوں کی اکثریت کو ایک طویل عرصے سے ڈیموکریٹک پارٹی کا حامی تصور کیا جاتا تھا۔
  • بھارتی نژاد امریکی جو 2020 تک خود کو ڈیموکریٹ کہتے تھے ان کی تعداد 56 فی صد تھی جو اب کم ہو کر 47 فی صد ہو گئی ہے؛ سروے
  • ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں ری پبلکن پارٹی کے لیے زیادہ حمایت یا قبولیت یا تحریک کے آثار ہیں: شریک مصنف سروے

امریکہ کی ریاست کولوراڈو کے شہر ڈینور میں دیوالی کے حوالے سے منقعدہ ایک تقریب میں سافٹ ویئر انجینئر سالل گوانکر نے اپنے انڈین امریکن دوستوں سے سوال کیا کہ کون اس بار صدارتی الیکشن میں ٹرمپ اور ہیرس کو ووٹ دیں گے؟

اس تقریب میں لگ بھگ 45 ٹیکنالوجی کے ماہر یا کاروباری افراد شریک تھے جن میں سے بیشتر نے 2020 میں ٹرمپ کے مقابلے میں بائیڈن کی حمایت کی تھی۔

تاہم سالل گوانکر اپنے سوال کے ملنے والے جواب سے کافی حیران ہوئے کیوں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو کاملا ہیرس کے مقابلے میں برتری حاصل تھی۔ تاہم یہ برتری کافی کم تھی۔

سالل گوانکر کے بقول میں حیرت زدہ تھا۔

وہ خود کاملا ہیرس کی حمایت کر رہے ہیں۔ ان کے بقول ان میں سے بیشتر نے 2020 میں جو بائیڈن کو ووٹ دیا تھا لیکن اب بڑی تبدیلی آ گئی ہے جس نے مجھے بہت زیادہ حیران کیا ہے۔

ایک عشائیے پر ہونے والے سروے سے اصل صورتِ حال کی وضاحت ہونا ممکن نہیں ہے۔ تاہم سالل گوانکر کا تجزبہ امریکہ بھر کی صورتِ حال کی عکاسی ضرور کرتا ہے۔

بھارتی نژاد امریکیوں کی اکثریت کو ایک طویل عرصے سے ڈیموکریٹک پارٹی کا حامی تصور کیا جاتا تھا۔

گزشتہ دنوں میں امریکہ کے ’کارنیگی انڈومنٹ‘ نے سروے کے نتائج جاری کیے جس میں بھارتی نژاد امریکی جو 2020 تک خود کو ڈیموکریٹ کہتے تھے ان کی تعداد 56 فی صد تھی جو اب کم ہو کر 47 فی صد ہو گئی ہے۔

ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار کاملا ہیرس کا آبائی تعلق بھارت سے ہے اس کے باوجود وہ اب تک 60 فی صد امریکہ میں موجود بھارتی کمیونٹی کی حمایت کے حصول میں کامیاب نظر آتی ہیں۔ ان کے مقابلے میں جو بائیڈن کو چار برس قبل اس کمیونٹی کے 70 فی صد ووٹ ملے تھے۔

دوسری جانب سابق امریکی صدر اور ری پبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارتی کمیونٹی کی حمایت کے حصول میں اضافہ کیا ہے اور ان کی حمایت کی شرح 22 فی صد سے بڑھ کر 33 فی صد ہو چکی ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

بائیڈن کا صدارتی نامزدگی کے لیے کاملا ہیرس کی حمایت: بھارتی شہریوں کا ردعمل

کارنیگی انڈومنٹ کے جنوبی ایشیا پروگرام کی ڈائریکٹر اور اس سروے کی شریک مصنف میلان وشنو کا کہنا ہے کہ اس سروے میں لگ بھگ 3.7 فی صد غلطی کی گنجائش ہے۔ دوسری جانب بعض جائزوں میں جنوبی ایشیا برادری میں کاملا ہیرس کی زبردست پذیرائی نظر آتی ہے۔ ان کے بقول امیدواروں کی حمایت میں تبدیلیاں نمایاں ہیں۔

میلان وشنو نے وی او اے سے گفتگو میں کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں ری پبلک پارٹی کے لیے زیادہ حمایت یا قبولیت یا تحریک کے آثار ہیں۔ ان کے بقول یہ بہت زیادہ تعجب خیز ہے۔

انہوں نے کہا کہ جائزوں سے واضح ہوتا ہے کہ کاملا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان مقابلے میں بہت کم شرح سے دونوں کو سبقت حاصل ہوتی ہے۔ البتہ اس سے یہ وضاحت بھی نہیں ہوتی کہ سابق صدر ایک بار پھر وائٹ ہاؤس کے مکین بن سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سروے کے نتائج امریکہ کی سیاست کے ان مفروضوں کو رد کر رہے ہیں کہ اقلیتیں اور تارکینِ وطن کی برادریاں صرف ڈیموکریٹک پارٹی کی حامی ہیں۔

مزید جانیے

امریکی انتخابات میں مسلمان امیدواروں کی تعداد میں اضافہڈیموکریٹک کنونشن: سابق صدر اوباما سمیت کئی رہنماؤں کو کاملا کی کامیابی کی امیدکاملا ہیرس سیاہ فام ہیں یا انڈین؟ ٹرمپ نے سوال اُٹھا دیا امریکہ میں2024 کےصدارتی انتخابات: 'ابھرتا ستارہ' بھارتی نژاد ویویک راما سوامی کون ہیں؟

امریکہ میں لگ بھگ 50 لاکھ بھارتی نژاد شہری ہیں جن میں زیادہ تر ہندو ہیں البتہ بہت کم تعداد میں مسلمان، سکھ، مسیحی، اور دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی ان میں شامل ہیں۔

ان میں سے بیشتر کے خدشات بھی دیگر امریکی شہریوں کے عکاس ہیں جو منگل کو الیکشن سے قبل مہنگائی، اسقاطِ حمل، ملازمتوں اور امیگریشن جیسے مسائل کو موضوعِ بحث بنا رہے ہیں۔ ان کے لیے بھارت اور امریکہ کے تعلقات بمشکل کسی کھاتے میں آتے ہیں۔

کارنیگی انڈومنٹ کے سروے کی ایک اور شریک مصنفہ اور امریکن یونیورسٹی کی پروفیسر سمترا بدری ناتھ کا کہنا ہے کہ یہ بھی دیگر امریکیوں کی طرح ہی ووٹ دیتے ہیں کیوں کہ یہ بھی امریکی شہری ہی ہیں۔

کارنیگی سروے نے بھارتی کمیونٹی کے بارے میں یہ مفروضہ بھی ختم کر دیا ہے کہ کاملا ہیرس کو ان کا بھارتی ورثہ بائیڈن کے 2020 کے الیکشن کے مقابلے میں زیادہ ووٹ لینے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مرد ووٹر جن کی عمر 40 برس سے کم ہے لیکن ان کو بزرگ سمجھا جاتا ہے۔ وہ دائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھتے ہیں۔

امریکہ میں صدارتی انتخابات، تیاریاں آخری مراحل میں

کارنیگی انڈومنٹ کے جنوبی ایشیا پروگرام کی ڈائریکٹر اور اس سروے کے شریک مصنف میلان وشنو کہتے ہیں کہ ڈیموکریٹک پارٹی کو بڑی عمر کے انکلوں سے مسئلہ نہیں ہے بلکہ ان کے مسئلہ 40 برس سے کم عمر کے مرد ہیں۔

پیو ریسرچ کے مطابق بھارتی نژاد امریکیوں کی دو تہائی اکثریت تارکینِ وطن پر مشتمل ہے جب کہ یہ برادری وقت کے ساتھ ساتھ سیاسی طور پر شدید تقسیم بھی ہوئی ہے۔