بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی کی جانب سے متنازع زرعی قوانین واپس لینے کے اعلان کے بعد اس فیصلے کے اسباب اور سیاسی اثرات پر ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔
اس فیصلے پر بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ قوانین کی واپسی سے مودی کے اپنے حامیوں میں پایا جانے والا 'طاقتور امیج' متاثر ہوا ہے اور وہیں بعض مبصرین اسے بھارت میں عوامی رائے کی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔
لیکن ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ نریندر مودی کی حکومت اپنے کسی فیصلے کی وجہ سے تنازعات میں گھری ہو یا اس نے کسی فیصلے سے اپنے قدم پیچھے ہٹائے ہوں۔
وزیرِ اعظم نریندر مودی کے ایسے اقدامات اور فیصلوں کا ایک مختصر جائزہ لیتے ہیں جو انہوں نے حالیہ عرصے کے دوران کیے ہیں۔
1۔ زرعی قوانین
وزیرِ اعظم مودی کی حکومت نے ستمبر 2020 میں تین زرعی قوانین متعارف کرائے تھے۔ ان قوانین کے بارے میں حکومت کا دعویٰ تھا کہ ان اصلاحات سے زراعت میں نجی شعبے کی سرمایہ کاری کو فروغ ملے گی۔ لیکن کسانوں نے ان قوانین کو مسترد کردیا تھا اور بھارت کی تاریخ کا طویل ترین احتجاج شروع ہوا۔
اس دوران کسان تنظیموں کے نمائندوں سے مذاکرات کے متعدد دور ہوئے لیکن حکومت احتجاج ختم کرانے میں ناکام رہی۔ اس دوران کسانوں نے دارالحکومت دہلی کی جانب آنے والے راستوں پر احتجاجی دھرنا دیا جو قوانین واپس لینے کے اعلان کے باجود جاری ہے۔
اگرچہ وزیرِ اعظم مودی نے ان قوانین کو واپس لینے کی وجہ یہ بتائی ہے کہ کوشش کے باوجود وہ بعض کسانوں کو ان قوانین کے فوائد پر قائل نہ کرسکے لیکن مبصرین کے مطابق یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بھارت کی پانچ اہم ریاستوں اتر پردیش، پنجاب، اتر کھنڈ، ہماچل پردیش اور گوا میں انتخابات ہونے والے ہیں۔
SEE ALSO: بھارتی کسانوں کا احتجاج رنگ لے آیا، وزیرِ اعظم مودی کا زرعی قوانین واپس لینے کا اعلانپنجاب، ہریانہ اور اتر پردیش میں زرعی قوانین کی مخالفت کی جارہی تھی۔ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو زرعی قوانین کے خلاف جاری احتجاج کی وجہ سے ان ریاستوں میں دباؤ کا سامنا تھا۔
مبصرین کے مطابق مذکورہ ریاستوں میں عنقریب ہونے والے انتخابات اور 2024 کے عام انتخابات سے قبل بی جے پی اپنی سیاسی پوزیشن مستحکم کرنا چاہتی تھی اس لیے وزیرِ اعظم مودی نے زرعی قوانین کی واپسی کا اعلان کیا۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق نریندر مودی نے قوانین واپس لینے کا اعلان سکھ مت کے بانی گورو نانک کے یومِ پیدائش کے موقع پر کیا۔ نئی دہلی کی سرحد پر دھرنا دینے والے کسانوں میں ایک بڑی تعداد سکھوں کی ہے جن کا تعلق پنجاب سے ہے۔
2۔ شہریت قانون
نریندر مودی کی حکومت نے 2019 میں شہریت کا قانون پاس کیا تھا۔ اس قانون کے ناقدین کے مطابق بھارت کے پڑوسی ممالک کے مسلمانوں کو بھارت کی شہریت نہ دینے سے متعلق یہ قانون اس کے سیکیولر امیج کو مجروح کرتا ہے۔
اس قانون کے مطابق 2015 سے قبل افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے بھارت منتقل ہونے والے بدھ، مسیحی، ہندو، جین، پارسی اور سکھ بھارت کی شہریت کے لیے اہل قرار دیے گئے تھے۔
اس قانون سازی کے بعد نئی دہلی سمیت بھارت کے مختلف شہروں میں احتجاج اور دھرنے ہوئے۔ بالخصوص نئی دہلی کے شاہین باغ میں ہونے والے دھرنے کو مقامی اور عالمی سطح پر توجہ حاصل ہوئی۔
اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق نے شہریت قانون کو 'اپنی بنیادی نوعیت کے اعتبار سے امتیازی' قرار دیا تھا۔ بھارت میں مسلمان تنظیموں کے احتجاج کے باجود شہریت کا یہ متنازع قانون واپس نہیں لیا گیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
البتہ آل انڈیا مجلس اتحادِ مسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے سربراہ اسد الدین اویسی نے ایک عوامی اجتماع سے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ زرعی قوانین کی واپسی کے اعلان کے بعد اب مسلمانوں کی باری ہے کہ وہ مرکزی حکومت کو شہریت ترمیمی قانون ختم کرنے کے لیے مجبور کریں۔
بی جے پی شہریت قانون میں مسلمانوں سے امتیازی سلوک کے تاثر کو مسترد کرتی ہے اور اس کے مطابق شہریت قانون میں ترمیم بنیادی طور پر بل میں مذکورہ ممالک کی غیر مسلم آبادی سے تعلق رکھنے والے ان شہریوں کو بھارت میں شہریت دینے کے لیے کی گئی ہے۔
3۔ کشمیر کی حیثیت میں تبدیلی
بی جے پی نے 2019 کے انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرنے کے بعد بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی ملکی آئین میں خصوصی حیثیت ختم کی۔ اس ضمن میں آرٹیکل 370 اور 35 اے میں ترامیم کر کے جموں اور کشمیر کو تقسیم کر کے انہیں براہ راست مرکزی حکومت کے ماتحت کر دیا اور لداخ کو الگ ریاست بنا دیا گیا۔
نریندر مودی کی حکومت کو اس فیصلے کے خلاف بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ جس پر حکومت نے فیصلے کی مخالفت کرنے والی کشمیری قیادت کو طویل عرصے تک نظر بند رکھا۔
کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ بھارتیہ جنتا پارٹی کا دیرینہ انتخابی وعدہ تھا۔ بی جے پی اسے بھارت کی سالمیت کے لیے اہم قانون سازی قرار دیتی ہے اور اسے اپنی سیاسی کامیابی میں شمار کرتی ہے۔
بھارت میں اس تبدیلی کے ناقدین میں سے بعض کی رائے میں اس فیصلے سے کشمیر کا معاملہ بین الاقوامی سطح پر مزید اجاگر ہوا ہے۔
4۔ زمین کے حصول کا قانون
نریندر مودی کو زمین کی خریداری سے متعلق 2015 میں اراضی کے حصول سے متعلق متعارف کرائے گئے ایک قانون سے بھی پیچھے ہٹنا پڑا تھا۔
اس قانون میں دفاع، دیہات کو بجلی کی فراہمی، دیہی علاقوں کے رہائشی منصوبوں اور صنعتی علاقوں کے لیے اراضی کے حصول کے لیے اس علاقے کے 80 فی صد مالکانِ اراضی کی تائید حاصل کرنا جیسی شرائط کا خاتمہ تھا۔
SEE ALSO: بھارتی وزیرِ اعظم کی کابینہ میں تبدیلیاں: ’بی جے پی نے خطرات بھانپ لیے ہیں‘وزیرِ اعظم مودی کے پہلی بار منصب سنبھالنے کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب انہیں حزبِ اختلاف اور کسانوں کی مخالفت اور احتجاج کا سامنا کرنا پڑا اور انہوں نے یہ قانون واپس لے لیا۔
5۔ نوٹ بندی
آٹھ نومبر 2016 کو وزیرِ اعظم مودی نے اچانک بھارت میں 500 اور ہزار روپے مالیت کے کرنسی نوٹوں کی بندش کا اعلان کردیا تھا۔ مودی نے نوٹ بندی کی وجہ یہ بتائی تھی کہ اس سے ملک میں چھپائی گئی غیر قانونی دولت سامنے لانے اور کالا دھن ختم کرنے میں مدد ملے گی۔
لیکن سوا ارب سے زائد آبادی رکھنے و الے ملک میں اچانک اس فیصلے کے اطلاق نے افراتفری پیدا کر دی تھی۔ اس فیصلے کی وجہ سے بینکوں کے سامنے نوٹ تبدیل کرانے کے لیے لمبی قطاریں لگیں اور نقد لین دین پر انحصار کرنے والے کئی چھوٹے کاروبار یا تو ختم ہوگئے یا بری طرح متاثر ہوئے۔
بھارت کی معیشت اس فیصلے کے اثرات سے سنبھل ہی رہی تھی کہ اسے کرونا وبا کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
ماہرین کے مطابق نوٹ بندی کے اہداف حاصل نہیں ہوسکے بلکہ اس کی وجہ سے بھارت کو معاشی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے لی گئی ہیں۔