افغانستان میں حکام نے تصدیق کی ہے کہ ایران کے سرحدی علاقے میں روزگار کی تلاش میں آنے والے افغان مزدوروں کی ہلاکت پر دونوں ملکوں نے مشترکہ تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔
کابل میں وزارت خارجہ کے ترجمان گران ہیواد نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ مشترکہ تحقیقات کے حوالے سے افغانستان اور ایران کے سرحدی حکام کا پہلا باقاعدہ اجلاس آج ہو رہا ہے۔
اُن کے بقول اجلاس میں نہ صرف ایک دوسرے کے ساتھ ابتدائی معلومات کا تبادلہ کیا جا رہا ہے۔ بلکہ اس سلسلے میں تحقیقات شروع کرنے کے لیے طریقہ کار یا لائحہ عمل پر بھی غور ہو گا۔
وزرات خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ افغانستان کے مغربی صوبے ہرات سے تعلق رکھنے والے 46 مزدور روزگار کے سلسلے میں ایران جارہے تھے۔ جن میں سے 10 افراد کی لاشیں دریا سے برآمد کی گئی ہیں جب کہ 19 افراد کو بچالیا گیا ہے اور 17 افراد ابھی تک لاپتا ہیں۔
افغانستان کے ذرائع ابلاغ کے مطابق دو مئی کو مزدوروں نے روزگار کی تلاش میں غیر قانونی طور پر ایران جانے کی کوشش کی تھی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق عینی شاہدین اور افغان حکام نے الزام لگایا تھا کہ ان مزدوروں کو ایران کی سرحدی پولیس نے گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قریبی دریا میں پھینک دیا تھا۔
ان میں سے 16 افراد جان بچا کر گھروں کو واپس پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
کابل میں حکام نے ایران کے سرحدی سیکیورٹی اہلکاروں کے افغان مزدروں پر تشدد اور مبینہ طور پر اُنہیں دریا میں پھینکنے پر شدید احتجاج کیا تھا۔
اس واقعے کے فوراً بعد افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ حنیف اتمر اور ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا اور دونوں نے اس واقع کی مشترکہ تحقیقات کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
اس سلسلے میں دونوں ممالک کے سرحدی حکام پر مشتمل ایک مشترکہ کمیشن قائم کردیا گیا ہے۔
ایران نے سرکاری طور پر اس الزام کی تردید کی تھی مگر افغان ذرائع ابلاغ کے مطابق عینی شاہدین نے الزام لگایا تھا کہ دریا میں مزدور پھینکنے کے بعد ان کی لاشیں نکالنے والوں پر ایران کے سرحدی سیکیورٹی اہلکار مسلسل فائرنگ کر رہے تھے۔
افغانستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ تحقیقاتی کمیشن میں شامل اعلٰی عہدے دار اور دیگر اراکین نے ہرات پہنچ کر تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ نے بھی افغان حکام سے کہا تھا کہ واقعے کی مکمل تحقیقات کر کے ملوث افراد کی نشاندہی کریں۔ پومپیو نے کہا تھا کہ ایرانی گارڈز کے ہاتھوں افغان مزدوروں کی ہلاکت پر امریکہ کو تشویش ہے۔
یورپی یونین نے بھی افغان پناہ گزین مزدوروں کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔
ماہرین کے مطابق افغانستان اور ایران کے درمیان بظاہر کوئی سرحدی تنازع نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی دونوں ملکوں کے تعلقات زیادہ خوشگوار نہیں ہیں۔
ستر کی دہائی میں آخر میں افغان جنگ کے دوران ایران نے محدود پیمانے پر مہاجرین کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت دی۔ تاہم پاکستان کے برعکس ان مہاجرین کو صرف کیمپوں تک ہی محدود رکھا گیا۔
ان پناہ گزینوں پر کسی قسم کی معاشی اور کاروباری سرگرمی پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
نوے کی دہائی میں بہت سے افغان مہاجرین واپس افغانستان آ گئے تھے۔ صرف شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کو ملک میں رہنے کی اجازت دی گئی۔
البتہ نائن الیون کے بعد ان مہاجرین کو بھی وطن واپس جانے پر مجبور کیا گیا۔
لیکن افغانستان میں اندرونی خلفشار اور روزگار کے مواقع نہ ہونے پر بہت سے مزدور اب بھی مزدوری کے لیے ایران کے سرحدی علاقوں کا رُخ کرتے ہیں۔