اگرچہ چین اور روس اس بات پر متفق معلوم ہوتے ہیں کہ ایران کے نیوکلیئر عزائم کے بارے میں تشویش کی وجوہ موجود ہیں، لیکن یہ دونوں طاقتیں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے ایران پر پابندیاں عائد کرنے کی کسی نئی تجویز کی راہ روکنے کو تیار معلوم دیتی ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی 15 رکنی سلامتی کونسل نے 2006 سے 2010 تک کے عرصے میں ایران کے خلاف چار بار پابندیاں عائد کی ہیں۔ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی تازہ ترین رپورٹ سے یہ امکان پیدا ہوا ہے کہ ایران کی نیوکلیئر فائل ایک بار پھر سلامتی کونسل کے سامنے پیش کی جا سکتی ہے تا کہ اقتصادی، مالیاتی اور فوجی شعبوں میں پابندیوں کے پانچویں راؤنڈ کو زیرِ غور لایا جائے۔
لیکن ماسکو اور بیجنگ نے پہلے ہی اس سمت میں کسی کارروائی کو روکنے کی کوشش کی ہے۔ روس کی وزارتِ خارجہ نے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی رپورٹ کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا ہے کہ اس میں کوئی نئی اطلاع نہیں دی گئی ہے۔
روس نے انتباہ کیا کہ اس رپورٹ کو ان کوششوں کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے جو اس مسئلے کا سیاسی اور سفارتی حل تلاش کرنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔ ادھر بیجنگ نے بات چیت کے مطالبے کو دہرایا ہے اور کہا ہے کہ پابندیوں سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس سے یہ نتیجہ تو اخذ نہیں کیا جانا چاہیئے کہ یہ دونوں طاقتیں چاہتی ہیں کہ ایران نیوکلیئر ہتھیار حاصل کر لے لیکن ایران کو اس کوشش سے روکنا ان کی اولین ترجیح نہیں ہے۔
واشنگٹن کی ’کونسل آن فارن ریلیشن‘ کے میتھیو کورنیگ کہتے ہیں کہ امریکہ کے مقابلے میں روس اور چین، نیوکلیئر اسلحہ سے لیس ایران کے تصور سے کہیں کم خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ وہ اس کی وجوہات بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’جب امریکہ یہ سوچتا ہے کہ ایران کے نیوکلیئر اسلحہ حاصل کرنے سے کون کون سے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں تو اسے یہ فکر ہوتی ہے کہ اس سے خلیج کے شراکت داروں پر کیا اثرات ہوں گے کیا اسے سعودی عرب جیسے ملکوں کے لیے سلامتی کی ضمانتیں دینی ہوں گی اسرائیل کی سلامتی کے لیے جو قریبی شراکت دار ہے، اس کا کیا مطلب ہوگا، عراق اور افغانستان میں امریکی فورسز پر اس کا کیا اثر پڑے گا۔‘‘
میتھیو کہتے ہیں کہ اس کے مقابلے میں ان چیزوں کی فہرست جن پر روس اور چین کو تشویش ہو سکتی ہے بہت مختصر ہے۔ لہٰذا وہ ایران کے نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں سخت اقدامات کرنے کو رضامند نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ روس اور چین کے ایران کے ساتھ جو دنیا کا چوتھا سب سے بڑا تیل پیدا کرنے والا ملک ہے قریبی اقتصادی اور تجارتی تعلقات قائم ہیں۔ وہ اپنے ان مفادات کو خطرے میں ڈالنے میں احتیاط سے کام لیں گے۔
امریکن یونیورسٹی کے پروفیسر ڈیوڈ بوسکو کہتے ہیں کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے پاس اب صرف سخت ترین پابندیاں باقی رہ گئی ہیں جن میں ایران کے سینٹرل بنک یا اس کی تیل اور گیس کی بر آمدات کو نشانہ بنانا شامل ہے۔ ’’اب ہم اس مرحلے پر پہنچ گئے ہیں جہاں اگلے اقدامات خاصے سخت ہوں گے جن سے ایران کی پوری معیشت مفلوج ہو کر رہ جائے گی۔ میرے خیال میں روس اور چین اس حد تک جانے کو تیار نہیں ہوں گے۔‘‘
پابندیوں کے گذشتہ چار راؤنڈز میں روس اور چین نے اپنا ویٹو کا حق استعمال نہیں کیا لیکن انھوں نے اپنا اثر و رسوخ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ضرور استعمال کیا کہ پابندیاں اتنی سخت نہ ہوں جتنی مغربی طاقتیں چاہتی تھیں۔
نئے اقدامات کو روکنے کی کوشش کے طور پر روس نے ایک منصوبہ پیش کیا ہے جس کے تحت ایران اپنی نیوکلیر تنصیبات کے معائنوں میں تعاون کرے گا تا کہ اس کے نیوکلیر پروگرام کی نوعیت کے بارے میں شبہات کو دور کیا جا سکے اور اس کے عوض اس پر عائد پابندیاں بتدریج ہٹا لی جائیں گی۔
ایران کا اصرار ہے کہ اسکے نیوکلیئر عزائم خالصتاً پر امن ہیں۔ اس نے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی رپورٹ کو جعلسازی کہہ کر مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ ایجنسی امریکہ کے سیاسی مقاصد کے لیے اس کی آلۂ کار ہے۔ ایران نے حال ہی میں یہ بھی کہا ہے کہ وہ اس معاملے کو طے کرنے کے لیے مذاکرات کی میز پر واپس آنے کو تیار ہے۔
لیکن ایران کے ساتھ اب تک جو کئی تلخ تجربے ہوئے ہیں ان کے بعد کیا بین الاقوامی برادری مزید مذاکرات کرنا چاہے گی؟ قدامت پسند امریکی ریسرچ تنظیم ’امریکن فارن پالیسی کونسل‘کے ایلن برمن کہتے ہیں کہ بات چیت کا وقت خاص طور سے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی تازہ ترین رپورٹ کے بعد ختم ہو چکا ہے۔ ’’عام خیال یہ ہے کہ ان تمام مختلف اقدامات کے ذریعے، چین اور روس کے ذریعے اور مذاکرات کی پیشکش کے ذریعے ایران اپنے نیوکلیر پروگرام کے لیے وقت حاصل کر رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایرانیوں کے ساتھ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کا وقت گذر چکا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اب جب کہ وقت تیزی سے گذر رہا ہے ہم ایرانیوں کو روکنے کے لیے کیا کرنے کو تیار ہیں۔
تجزیہ کار متفق ہیں کہ ایران کی نیوکلیر اسلحہ حاصل کرنے کی کوشش کو سست کرنے کے لیے امریکہ اور اس کے یورپی اتحادی یکطرفہ اقدامات کر سکتے ہیں۔ ان اقدامات میں ایران کے تیل اور گیس کی بر آمدات پر اقتصادی پابندیاں شامل ہیں۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ مستقبل قریب میں اقوام متحدہ میں کسی سخت اور متفقہ اقدام کا امکان نہیں۔