ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کا کہنا ہے کہ ان کے ملک کو 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے واشنگٹن کی جانب سے پہلے سے زیادہ ٹھوس ضمانتیں درکار ہیں۔ انہوں نے اس بات کا اعادہ بھی کیا کہ اقوامِ متحدہ کے جوہری نگران ادارے کو تہران کے جوہری کام کے بارے میں بقول ان کے سیاسی محرکات کی بنیاد پر جاری اپنی تحقیقات کو ختم کر دینا چاہیے۔
بدھ کے روز ماسکو کے دورے کے دوران امیر عبداللہیان نے اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف سے ملاقات کی ۔ وہیں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ تہران جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے یورپی یونین کے متن پر واشنگٹن کے ردعمل کا 'احتیاط سے' جائزہ لے رہا ہے۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں یک طرفہ طور پر امریکہ کو جوہری معاہدے سے الگ کر لیا تھا اور ایران پر دوبارہ سخت پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
تہران اور واشنگٹن کے درمیان 16 ماہ کے بالواسطہ مذاکرات کے بعد، یورپی یونین کی پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے آٹھ اگست کو کہا تھا کہ یورپی یونین نے معاہدے کی بحالی کے لیے تعطل پر قابو پانے کے لیے ایک حتمی پیش کش کر دی ہے۔
اقوامِ متحدہ کا جوہری توانائی کا نگران ادارہ ایران کے تین غیر اعلان شدہ مقامات پر پائے جانے والے جوہری مواد کے ماخذ کے بارے میں چھان بین کر رہا ہے۔
SEE ALSO: ایران یورینیم افزودگی کے پروگرام کو اپ گریڈ کر رہا ہے: عالمی ایٹمی توانائی ایجنسیامریکہ نے چار سال قبل جب سے معاہدے سے علیحدہ ہونے کے بعد ایران پر دوبارہ پابندیاں نافذ کرنا شروع کی ہیں ، تہران معاہدے سے منسلک اپنے وعدوں سے آہستہ آہستہ پیچھے ہٹ گیا ہے۔
یہ معاہدہ ایران کو جوہری بم بنانے سے روکنےکے لیے ترتیب دیا گیا تھا۔ تہران کا اصرار ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف پر امن شہری مقاصد کے لیے ہے۔
امیر عبد اللہیان کا ماسکو کا دورہ واشنگٹن پوسٹ کی اس رپورٹ کے بعد ہوا ہےجس میں کہا گیا ہے تہران روس کو ایرانی ساختہ جنگی ڈرونز کی پہلی کھیپ بھیج چکا ہے ۔
تہران نے گزشتہ ماہ روس کو، جو یوکرین پر حملہ کر چکا ہے ، ڈرون بھیجنے کے بارے میں امریکی دعوؤں کو مسترد کر دیا تھا۔
اس رپورٹ کے لیے کچھ مواد رائٹرز سے حاصل کیا گیا ہے۔