ایران کی نوبیل انعام یافتہ شخصیت نرگس محمدی کی قید میں ، جو جیل کی سزا کاٹ رہی ہیں، ایک عدالت نے 15 ماہ کا مزید اضافہ کر دیا ہے۔
نرگس کے خاندان نے پیر کے روز انسٹاگرام پر اپنی ایک پوسٹ میں بتایا ہے کہ نئی سزا 19 نومبر کو سنائی گئی اور نرگس محمدی پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ وہ ایران کی اسلامی جمہوریہ کے خلاف پراپیگنڈہ پھیلا رہی ہیں۔
پوسٹ کے مطابق نرگس نے عدالت میں پیش ہونے سے انکار کر دیا تھا۔
فیصلے میں مزید کہا ہے کہ سزا پوری ہونے کے بعد محمدی پر دو سال کے لیے بیرون ملک سفر کرنے اور اس مدت کے دوران سیاسی اور سماجی گروپوں کی رکن بننے اور موبائل فون رکھنے پر پابندی ہو گی۔
اس حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نرگس محمدی کو اپنی نئی سزا دارالحکومت تہران سے باہر کسی دوسرے صوبے کی جیل میں کاٹنی ہو گی۔ اس وقت وہ ایران کی بدنام زمانہ اوین جیل میں اپنی 30 ماہ کی سزا کاٹ رہی ہیں۔
انہں یہ سزا مبینہ طور پر ایران کے حکمرانی کے نظام کے خلاف پراپیگنڈہ کرنے، جیل کے احکامات نہ ماننے اور حکام کو بدنام کرنے پر دی گئی تھی۔
تازہ ترین سزا، گزشتہ سال اکتوبر میں محمدی کو ملنے والے نوبیل انعام پر ایران کی مذہبی حکومت کی برہمی کو ظاہر کرتی ہے ۔ انہیں یہ ایوارڈ انسانی حقوق کے لیے برسوں کی مہم پر دیاگیا تھا۔ وہ یہ مہم حکومت کی جانب سے عشروں تک انہیں ہدف بنائے جانے کے باوجود چلاتی رہی تھیں۔
نرگس محمدی امن کا نوبیل انعام جیتنے والی 19 ویں خاتون ہیں اور 2003 میں انسانی حقوق کی کارکن شیریں عبادی کے بعد وہ اس عالمی ایوارڈ کی حق دار قرار دی جانے والی دوسری ایرانی خاتون ہیں۔
SEE ALSO: امن کا نوبیل انعام؛ ایران میں خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی نرگس محمدی کے نام51 سالہ محمدی نے ان مشکلات اور آزمائشوں کے باوجود حقوق کے لیے اپنی مہم جاری رکھی، ایرانی حکام نے انہیں متعدد بار گرفتار کیا ہے اور اپنی زندگی کے کئی برس انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنے پڑے۔
نومبر کے اوائل میں، نرگس محمدی نے، دیگر قیدیوں کے ساتھ مل کر طبی امداد کے حصول سے انکار اور ملک میں خواتین کے لیے لازمی حجاب کے خلاف احتجاج میں بھوک ہڑتال کی تھی۔
گزشتہ سال ایک 22 سالہ خاتون مہسا امینی کی پویس کی حراست کے دوران ہلاکت کے خلاف ملک بھر میں خواتین کی زیر قیادت بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں کے لیے نرگس محمدی کے افکار نے ایک رہنماکردار ادا کیا تھا۔
مہسا کو پولیس نے اس الزام پمیں حراست میں لیا تھا کہ انہوں نے سر کو درست طور پر ڈھانپا ہوا نہیں تھا۔
SEE ALSO: مہسا کی کہانی ان کی ظالمانہ موت سے ختم نہیں ہوئی: صدر بائیڈنیہ مظاہرے ایران میں دینی حکومت کے قیام کے بعد سے سب سے بڑے مظاہرے تھے جس نے حکمرانوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
ان مظاہروں کے دوران سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے، کئی ایک کو پھانسی چڑھایا گیا اور ہزاروں مظاہرین کو قید و بند کی سزائیں سنائی گئیں۔
ایران میں 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے حجاب اور بالخصوص سیاہ چادر اوڑھنا ایک سیاسی علامت رہی ہے۔
SEE ALSO: ایران۔ ڈریس کوڈ کے نئے قانون پرعمل نہ کرنےوالی خواتین کے لیے دس برس تک قید کی سزااگرچہ ایران میں خواتین ملازمتیں کرتی ہیں۔ وہ تعلیم کے شعبے کے ساتھ ساتھ سرکاری عہدوں پر بھی فائز ہیں لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کی زندگیوں کو جزوی طور پر لازمی حجاب جیسے قوانین کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے۔
ایران اور اس کا ہمسایہ ملک افغانستان، دنیا کے صرف دو ایسے ملک ہیں جہاں خواتین کے لیے حجاب پہننا قانونی طور پر لازمی ہے۔
(اس رپورٹ کے لیے کچھ مواد اے پی سے لیا گیا ہے)