ایران کے سپریم لیڈر آیت سید علی خامنہ ای اور حماس کے لیڈر اسماعیل ہنیہ کے درمیان رواں ماہ کے آغاز میں ہونے والی ملاقات سے متعلق بعض تفصیلات سامنے آئی ہیں۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ نے بدھ کو اپنی ایک رپورٹ میں تین سینئر حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ تہران میں ہونے والی ملاقات میں آیت اللہ خامنہ ای نے اسماعیل ہنیہ کو واضح پیغام دیا تھا کہ حماس نے چوں کہ سات اکتوبر کو اسرائیل پر ہونے والے حملوں سے ایران کو خبردار نہیں کیا تھا اس لیے تہران ان کی جانب سے اس جنگ کا حصہ نہیں بنے گا۔
ایران حماس کا دیرینہ حامی رہا ہے تاہم حماس اور ایران کے عہدے داروں نے شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ’رائٹرز‘ کو بتایا ہے کہ آیت اللہ خامنہ ای نے حماس کے رہنما سے ملاقات میں کہا ہے کہ تہران حماس کی سیاسی اور اخلاقی حمایت جاری رکھے گا تاہم براہِ راست اس جنگ میں مداخلت نہیں کرے گا۔
واضح رہے کہ امریکہ اور مغربی ممالک نے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔
حماس کے ایک عہدے دار کے مطابق ایران کے سپریم لیڈر نے اسماعیل ہنیہ پر زور دیا کہ وہ اپنی تنظیم میں ایران اور لبنان میں ان کے اتحادی حزب اللہ سے اعلانیہ مدد کی اپیل کرنے والوں کو خاموش کرائے۔
گزشتہ ماہ اسرائیل پر حماس کا حملہ لبنان میں اس کی اتحادی تصور ہونے والی ایران نواز عسکری تنظیم حزب اللہ کے لیے بھی سرپرائز تھا۔ حزب اللہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کارروائی سے قبل وہ اسرائیل کے ان سرحدی علاقوں میں الرٹ پر نہیں تھے جہاں 2006 کے بعد مسلسل کشیدگی رہتی ہے۔
گزشتہ ماہ حماس کے اسرائیل پر حملے میں 1200 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے۔ اس کارروائی کے جواب میں اسرائیل کے حملوں کے باعث حماس کے زیرِ انتظام غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق 11 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو گئے ہیں۔
حماس کے حملے کے اچانک ہونے کے بارے میں حزب اللہ کے ایک کمانڈر کا کہنا تھا کہ وہ صبح اٹھے تو جنگ شروع ہو چکی تھی۔
SEE ALSO: کیا ایران نے اسرائیل پر حملے میں حماس کی مدد کی؟اسرائیل حماس جنگ کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال میں پہلی بار ایران کی جانب سے گزشتہ چار دہائیوں کے دوران مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل اور امریکہ کے خلاف بنایا گیا عسکری اتحاد متعدد محاذوں پر فعال ہے۔
اس وقت اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان گزشتہ 20 برس کی شدید ترین سرحدی جھڑپیں ہو رہی ہیں۔ ایران نواز عسکریت پسندوں نے عراق اور شام میں امریکی فورسز پر حملے کیے ہیں۔ اسی طرح یمن کے حوثیوں نے اسرائیل پر میزائل اور ڈرون حملے بھی شروع کیے ہیں۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ اس علاقائی اتحاد کے لیے آزمائش ثابت ہو رہی ہے جسے ایران اور اس کے حامی ’مزاحمتی محور‘ کہتے ہیں اور جس میں شامی حکومت، حزب اللہ، حماس اور عراق اور یمن کے مختلف عسکریت پسند گروپس شامل ہیں۔ ان مختلف گروپس کی ترجیحات اور علاقائی چیلنجز بھی مختلف ہیں۔
بیروت میں قائم تھنک ٹینک کارنیگی مڈل ایسٹ سینٹر سے تعلق رکھنے والے مشرقِ وسطی کے ماہر مہند حاج علی کا کہنا ہے سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے نے مزاحمتی محور کے ارکان کے لیے اپنے سے کئی گنا طاقت ور حریف کے خلاف آئندہ لائحۂ عمل کے انتخاب سے متعلق فیصلہ مشکل میں ڈال دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب آپ کی آنکھ کھلے اور جنگ شروع ہو چکی ہو تو ایسے حالات میں آپ کے اتحادیوں کے لیے آپ جیسی پوزیشن لینا مشکل ہو جاتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
حماس کی مدد کی اپیل
اسرائیل نے حماس کے خاتمے کو اپنی جوابی کارروائیوں کا ہدف قرار دیا ہے۔ اسرائیل کے فضائی اور زمینی حملوں میں 11 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں اور غزہ کی پٹی پر حکومت کرنے والی حماس اس وقت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔
سات اکتوبر کو حماس کے عسکری کمانڈر محمد ضیف نے اپنے بیان میں مزاحمتی محور کے تمام اتحادیوں سے مدد کی اپیل کی تھی۔ اپنے آڈیو میسیج میں انہوں نے لبنان، ایران، یمن، عراق اور شام میں ’مزاحمتی‘ گروپس کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ یہ وہ دن ہے کہ آپ کو اپنے فلسطینی بھائیوں سے مل جانا چاہیے۔
ماہرین کے مطابق مطلوبہ مدد اور تعاون نہ ملنے پر حماس کی قیادت کی جانب سے بے چینی کے آثار بھی نمایاں ہو رہے ہیں۔ گزشتہ ماہ 16 اکتوبر کو ایک انٹرویو میں حماس کے سینئر رہنما خالد مشعل نے حزب اللہ کی کارروائیوں کا شکریہ ادا کیا تھا تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’’جنگ کے لیے مزید کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل حماس جنگ سے متعلق تہران کی سوچ بچار سے واقف چھ عہدے داروں کا کہنا ہے کہ مزاحمتی محور کا سربراہ ہونے کے باجود ایران اس وقت تک اس تنازع کا حصہ نہیں بنے گا جب تک اسرائیل اور امریکہ اس پر براہِ راست حملہ نہیں کرتے۔
ایرانی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ تنازع میں براہِ راست فریق بننے کے بجائے ایران کی حکومت حزب اللہ سمیت اپنے مسلح اتحادیوں کے ذریعے مشرقِ وسطیٰ میں امریکی اہداف کو نشانہ بنانے کے منصوبے پر کام کر رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایران کی حکمتِ عملی ہو گی کہ ایسے اقدامات کیے جائیں جس سے غزہ میں حماس کے ساتھ اظہار یک جہتی ہو لیکن وہ براہِ راست جنگ کا حصہ نہ بنے اور ساتھ ہی اسرائیل کی فورسز کو مختلف محاذوں پر مصروف بھی رکھے۔
مشرقِ وسطیٰ کے امور کے ماہر اور سابق امریکی سفارت کار ڈینس روس کا کہنا ہے کہ ایران اسی انداز سے اپنی ڈیٹرنس برقرار رکھے گا اور یہ پیغام دے گا جب تک آپ براہ راست اس پر حملہ آور نہیں ہوتے تو وہ بھی تنازع کا حصہ نہیں بنے گا۔ لیکن اگر حملہ کریں گے سب کچھ بدل جائے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایران متعدد بار یہ واضح کرچکا ہے کہ اس کے سب اتحادی اپنے آزادانہ فیصلے کرتے ہیں۔
ایران کی وزارتِ خارجہ نے رائٹرز کی جانب سے اس کے مزاحمتی اتحاد کے اسرائیل حماس جنگ میں کردار سے متعلق تبصرے کے لیے رابطہ کیا تاہم اسے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ حماس کے لیڈر اسماعیل ہنیہ اور حزب اللہ نے بھی تاحال اس رپورٹ پر کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔
حزب اللہ کے داخلی مسائل
مزاحمتی محور کہلانے والے اتحاد میں حزب اللہ سب سے طاقت ور گروپ ہے۔ اس گروپ کے پاس ایک لاکھ جنگجو ہیں۔ گزشتہ ماہ حماس کے حملے کے بعد سے حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان مسلسل جھڑپیں جاری ہیں جن میں اس گروپ کے 70 جنگجو ہلاک ہو چکے ہیں۔
تاہم ایران پر انحصار کرنے والی حزب اللہ نے بھی اسرائیل کے ساتھ تاحال براہِ راست تصادم سے گریز کیا ہے۔ حزب اللہ کی ابھی تک کی حکمتِ عملی یہ رہی ہے کہ سرحد پر جھڑپوں کے ذریعے اسرائیلی فورسز کی غزہ میں جاری کارروائیوں کی شدت میں کمی لائی جائے۔
تاہم رائٹرز کے ذرائع کا کہنا ہے کہ حماس چاہتی ہے کہ حزب اللہ اسرائیل کے اندر تک حملے کرے۔ حزب اللہ کا اس بارے میں خیال ہے کہ یہ محاذ کھولنے سے اسرائیل جنگ کو لبنان کے اندر تک لے آئے گا لیکن غزہ میں جاری تصادم کی شدت کم نہیں ہو سکے گی۔
حزب اللہ ایک عسکری ملیشیا کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی تحریک بھی ہے جو لبنان کے حکومتی امور میں بھی ملوث ہے۔ اس لیے حزب اللہ کو اندازہ ہے کہ گزشتہ چار برسوں سے جاری معاشی بحران، بڑھتی ہوئی غربت اور کمزور ہوتے سرکاری اداروں کے ہوتے ہوئے وہ اسرائیل کے ساتھ براہ راست جنگ کی متحمل نہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
اسرائیل کے ساتھ 2006 میں ہونے والی جنگ کے بعد اسرائیلی بمباری سے جنوبی لبنان اور بیروت میں ہونے والی بمباری سے آنے والی تباہی کے اثرات سے نکلنے کے لیے حزب اللہ کو کئی سال لگے تھے۔
حزب اللہ کے لیڈر سید حسن نصراللہ نے تین نومبر کو اپنی تقریر میں کہا تھا کہ حماس نے کامیابی یقینی بنانے کے لیے اسرائیل پر حملے کو اپنے اتحادیوں سے چھپا کر رکھا تھا اور محور میں کسی کو ‘پریشان‘ نہیں کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی سرحد پر حزب اللہ کے حملے مثالی ہیں اور انہیں ’حقیقی جنگ‘ کہا جاسکتا ہے۔
ایران کی حکمتِ عملی کیا ہو گی؟
ایران اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا جب کہ اسرائیل تہران کی جوہری صلاحیت کو روکنے کے لیے جاری سفارتی کوششوں کی ناکامی کی صورت میں فوجی کارروائی کی دھمکی دیتا آیا ہے۔
تھنک ٹینک کارنیگی انڈاؤمنٹ فار انٹرنیشنل پیس سے وابستہ ایران کے ماہر کریم سجاد پور کے مطابق حالیہ بحران میں ایران عملیت پسند سیاست کا مظاہرہ کرے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ ایران نے گزشتہ چار دہائیوں میں یہ ثابت کیا ہے کہ وہ کسی براہ راست تنازع کا حصہ بنے بغیر امریکہ اور اسرائیل سے لڑائی جاری رکھنا چاہتا ہے۔
کریم سجاد پور کا کہنا ہے کہ ایران کی حکومت جس انقلابی نظریے پر کھڑی ہے اس کی بنیادوں میں امریکہ اور اسرائیل کی مخالفت شامل ہے۔ تاہم یہ لوگ خود کُش نہیں ہیں اور اپنا اقتدار برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔
یہ تحریر خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ پر مشتمل ہے۔