اسلام آباد میں جج کی اہلیہ کی جانب سے 14 سالہ گھریلو ملازمہ پر مبینہ تشدد کے واقعہ میں پولیس نے اقدامِ قتل کی دفعات بھی شامل کر دی ہیں۔
گھریلو ملازمہ رضوانہ کو مبینہ طور پر زہر دیے جانے کا بھی الزام سامنے آیا ہے۔ ڈاکٹروں نے تصدیق کے لیے رضوانہ کے خون کا نمونہ لیبارٹری بھجوا دیا ہے۔
خیال رہے کہ رواں ماہ 25 جولائی کو 14 سالہ گھریلو ملازمہ رضوانہ پر تشدد کا واقعہ سامنے آیا تھا۔
رضوانہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی جوڈیشل اکیڈمی میں تعینات سول جج عاصم حفیظ کے گھر کام کرتی تھیں۔
رضوانہ پر تشدد بارے خبریں سامنے آنے پر اُنہیں لاہور جنرل اسپتال داخل کیا گیا تھا جہاں اُن کے علاج کے لیے پنجاب حکومت نے 12 رکنی میڈیکل بورڈ تشکیل دیا تھا۔
اسلام آباد پولیس نے تھانہ ہمک میں پہلے سے درج مقدمے میں اقدام قتل کی دفعہ کے ساتھ جسم کے بیشتر اعضا کی ہڈیوں کو توڑنے کی دفعات بھی شامل کی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
میڈیکل بورڈ کی جانب سے رضوانہ کی میڈیکل رپورٹ پنجاب حکومت کو جمع کرا دی گئی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بچی کے جسم میں خون کی گردش نہیں ہو رہی۔ لڑکی کا جگر شدید متاثر ہے.
میڈیکل رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ڈر، خوف اور شدید زخموں کے باعث لڑکی بات کرنے سے قاصر ہے۔
میڈیکل رپورٹ کے مطابق بچی کے خون میں ریڈ، وائٹ بلڈ سیلز، پلیٹ لیٹس انتہائی کم ہو گئے ہیں جب کہ انفیکشن اور زخموں کے باعث لڑکی کی شوگر بہت کم ہو گئی ہے۔
میڈیکل رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ لڑکی کے دونوں بازو فریکچر ہیں جب کہ آنکھیں بھی متاثر ہوئی ہیں۔
'بچی کی حالت بہتر مگر صحت یابی میں وقت لگے گا'
پرنسپل پوسٹ گریجویٹ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ پروفیسر ڈاکٹر فرید الظفر کے مطابق رضوانہ کی حالت پہلے سے بہتر ہے جس کے مکمل صحت یاب ہونے میں وقت لگے گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ آکسیجن میں کمی کے باعث رضوانہ کے پھیپھڑوں میں انفیکشن اور خون کے کلاٹ تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ انفیکشن اور کلاٹ کی وجہ سے مریضہ کی آکسیجن سیچوریشن کم ہو رہی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
'پوتی ملنے آئی تو جسم پر تشدد کے نشان تھے'
رضوانہ کی دادی مختاراں بی بی کے مطابق اُن کی پوتی گزشتہ چھ ماہ سے اسلام آباد میں جج صاحب کے گھر ملازمہ تھی جس پر برے طریقے سے تشدد ہوا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مختاراں بی بی کا کہنا تھا کہ جب اُن کی پوتی اُنہیں ملنے کے لیے آئی تو اُس کے جسم پر تشدد کے نشانات تھے۔ اُسے سرگودھا کے سرکاری اسپتال لے گئے لیکن ڈاکٹروں نے کہا کہ یہ پولیس کیس ہے اور اسے مزید علاج کے لیے لاہور لے جائیں۔
مختاراں بی بی نے دعوٰی کیا کہ جج صاحب مختلف لوگوں کے توسط سے اُن سے رابطہ کر کے صلح صفائی سے معاملہ ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں، تاہم اُنہوں نے کسی بھی ایسے شخص کا نام بتانے سے گریز کیا کہ اُن سے کون رابطہ کر رہا ہے۔
واضح رہے کہ رضوانہ تشدد کیس میں جج عاصم حفیظ کی اہلیہ کے خلاف اسلام آباد میں مقدمہ درج ہے جس پر اُنہوں نے یکم اگست تک عدالتِ عالیہ لاہور سے حفاظتی ضمانت حاصل کر رکھی ہے۔
'حفاظتی ضمانت ملزم کا حق ہے'
ماہرِ قانون چوہدری آفتاب مقصود ایڈووکیٹ بتاتے ہیں کہ قانون کے مطابق کسی بھی کیس میں ملزم یا ملزمہ کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ حفاظتی ضمانت لے سکے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ جب بھی کسی ملزم کے خلاف مقدمہ درج ہوتا ہے تو اُسے ڈر ہوتا ہے کہ پولیس دورانِ تفتیش اُسے گرفتار کر سکتی ہے جس پر وہ قانون کے مطابق حفاظتی ضمانت لے سکتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ حفاظتی ضمانت ختم ہونے سے قبل ملزم یا ملزم کہ مذکورہ کیس میں شاملِ تفتیش ہونا پڑتا ہے۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ اگر ملزم ایسی صورت میں تفتیش کا حصہ نہ بنے تو قانون کے مطابق عدالت کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ ملزم یا ملزمہ کی حفاظتی ضمانت منسوخ کر سکتی ہے۔
'کم سن بچوں کو گھریلو ملازم رکھنا جرم قرار دیا جائے'
پاکستان میں انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے رضوانہ کے کیس میں مطالبہ کیا ہے کہ کم عمر گھریلو ملازمین کی ملازمت کو جرم قرار دیا جائے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ بچوں کے حقوق کے عالمی کنونشن پر پاکستان نے دستخط کیے ہیں جس کا بنیادی مقصد بچوں کو سرکاری اور نجی شعبوں میں تحفظ فراہم کرنا ہے۔