پاکستان کے دارالحکومت میں سابق سفارت کار کی بیٹی کے قتل کے بعد اسلام آباد پولیس کے آئی جی نے ملزم ظاہر جعفر کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے کے لیے متعلقہ حکام کو سفارش کرنے کی ہدایت کی ہے۔ پولیس کو پوسٹ مارٹم رپورٹ مل گئی ہے جس میں مقتولہ کے جسم پر تشدد اور زخموں کے کئی نشانات موجود ہیں۔
پولیس نے ملزم کا امریکہ اور برطانیہ سے بھی مجرمانہ ریکارڈ حاصل کرنے کے لیے متعلقہ اداروں سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اسلام آباد پولیس نے تھراپی ورکس نامی ادارے سے بھی رابطہ کیا ہے جہاں ملزم ذہنی مسائل سے دو چار افراد کی مدد کے لیے جز وقتی ملازمت کرتا تھا۔
پولیس کے ترجمان کے جاری کردہ بیان کے مطابق اسلام آباد پولیس کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) قاضی جمیل الرحمٰن نے مقتولہ نور مقدم کی تفتیشی ٹیم سے ملاقات کی۔ ایس ایس پی انوسٹی گیشن نے مقدمے کی پیش رفت کے بارے میں آئی جی اسلام آباد کو تفصیلی بریفنگ دی۔ آئی جی اسلام آباد نے مقدمہ میں ملوث ملزم ظاہر ذاکر کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کے لیے متعلقہ ادارے کو سفارش کرنے کی ہدایت کی۔
آئی جی نے ملزم کا انگلینڈ اور امریکہ سے بھی کرمنل ریکارڈ حاصل کرنے کے لئے متعلقہ اداروں سے رابطے کرنے کا حکم دیا۔
قاضی جمیل الرحمٰن نے شواہد کی فرانزک کرانے اور تھراپی ورکس نامی ادارے کے حکام سے بھی ملاقات کرنے کی ہدایت کی جہاں ملزم مبینہ طور پر کام کرتا تھا۔
اس سے قبل اسلام آباد پولیس نے ان خبروں کی مکمل تردید کی ہے جن کے مطابق ملزم کسی ذہنی عارضے میں مبتلا تھا یا پھر قتل کے وقت کسی نشہ کے زیرِ اثر تھا۔
اسلام آباد پولیس کے ایس ایس پی انوسٹی گیشن عطا الرحمٰن کے مطابق مقتولہ نور مقدم کیس میں بڑی بے رحمی سے قتل کیا گیا۔ اس بارے میں سوشل میڈیا پر کچھ غلط معلومات پھیلائی جا رہی ہے ۔
ایس ایس پی عطا الرحمٰن کا کہنا ہے کہ اس کیس میں موقعے کا کوئی گواہ موجود نہیں ہے البتہ گھر کے ملازمین سے تفتیش کی جا رہی ہے۔
’جب ملزم نے حملہ کیا تو وہ نشے کی حالت میں نہیں تھا‘
انہوں نے کہا کہ جب ملزم نے حملہ کیا تو وہ نشے کی حالت میں نہیں تھا۔ ملزم کے قبضے سے پستول بھی برآمد ہوا ہے۔ البتہ گولی پھنسنے کی وجہ سے پستول نہیں چلا تھا۔ اب تک کی تحقیقات کے مطابق ملزم نے ہوش و حواس میں یہ قتل کیا ہے۔
عطا الرحمٰن کا کہنا تھا کہ پولیس کی توجہ ملزم کی سابقہ زندگی پر نہیں بلکہ واردات پر ہے۔ ملزم نے قتل کے لیے جو چھری استعمال کی وہ بھی موجود ہے۔ ملزم کا کوئی ذہنی علاج نہیں چل رہا تھا۔ تمام پہلوؤں کا بغور جائزہ لیا جا رہا ہے۔
دوسری جانب مقتولہ نور مقدم کی تدفین اسلام آباد میں کر دی گئی جس میں سفارت کاروں سمیت شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
پنجاب حکومت کے ترجمان شہباز گِل نے سفارت کار شوکت مقدم کے گھر جا کر اظہار تعزیت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت مقتولہ کے اہلِ خانہ سے ہمدردی کا اظہار کرتی ہے۔ اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔
انہوں نے عوام سے درخواست کی کہ اس معاملے پر چند دن کے بعد خاموشی نہیں ہونی چاہیے۔ انصاف کی فراہمی کے لیے اس کیس کو زندہ رکھیں۔
انہوں نے عدالت سے بھی گزارش کی کہ اس کیس میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ ایک طرف امیر آدمی ہے اور ایک طرف عام آدمی ہے۔ اس کیس میں میرٹ پر انصاف کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیرِ انسانی حقوق اس کیس میں براہِ راست پولیس سے رابطے میں ہیں۔ وزیرِ اعظم نے خود اس کیس پر بریفنگ لی ہے۔ حکومت کے تمام لوگ اپنی ذمہ داری پوری کر رہے ہیں۔
کیس کی تفتیش کن پہلوؤں پر جاری ہے؟
اس قتل کے حوالے سے پولیس مختلف پہلوؤں پر تفتیش کر رہی ہے جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آیا یہ ملزم کا فعل کسی ذہنی بیماری کے باعث وقتی اشتعال کے سبب ہوا یا پھر اس کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی تھی۔
پولیس کے پاس موجود شواہد کے مطابق ملزم واردات کے اگلے روز بیرونِ ملک فرار ہونا چاہتا تھا۔ اس سلسلے میں اس کے پاس ٹکٹ بھی موجود تھا۔
اس کے ساتھ ساتھ ملزم کی طرف سے مقتولہ کو یرغمال بنانے کی اطلاعات بھی سامنے آ رہی ہیں۔ مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق ملزم نے مقتولہ نور کو دو دن تک یرغمال بنائے رکھا تھا۔ اس کے والدین کے تلاش کرنے پر اسے مجبور کیا وہ اپنے اہلِ خانہ کو لاہور جانے کا بتائے۔ ملزم نے جب نور کو تشدد کا نشانہ بنایا تو ملازمین نے ملزم کے دوستوں کو بلایا تھا۔
اس واقعے کی اطلاع اس وقت ملی جب ایک شخص کے زخمی ہونے کا کہا گیا تھا۔ البتہ پولیس کی طرف سے اب تک اس مبینہ زخمی کی شناخت سامنے نہیں لائی گئی۔
پولیس نے ملزم ظاہر جعفر کے ملازمین اور قریبی دوستوں کو شاملِ تفتیش کیا ہے۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ موصول
مقتولہ نور مقدم کی پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی پولیس کو موصول ہو گئی ہے جس میں بتایا گیا کہ مقتولہ کا سر دھڑ سے الگ تھا۔ رپورٹ کے مطابق جسم پر تشدد کے متعدد نشانات پائے گئے۔
پوسٹ مارٹم کے مطابق گھٹنے کے نیچے کے حصے پر اور جسم پر متعدد مقامات پر چاقو کے گہرے زخم ہیں۔ مقتولہ کے معدے سے لیے گئے مواد کو فرانزک ٹیسٹ کے لیے لیبارٹری بھیج دیا گیا ہے۔
سابق سفارت کاروں کی تنظیم ایسوسی ایشن آف فارمر ایمبیسڈرز آف پاکستان کی طرف سے اس بارے میں ایک بیان جاری کیا گیا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ملزم کا نام ای سی ایل میں شامل کیا جائے۔ کیوں کہ امکان ہے کہ ملزم اپنی دولت اور طاقت کی مدد سے باہر فرار ہو سکتا ہے۔
تنظیم کے سیکریٹری جنرل سابق سفیر ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ خواتین کے خلاف جرائم بڑھتے جا رہے ہیں۔ ان جرائم پر قابو پانے کے لیے حکومت قانون سازی کرے ۔