اسرائیل میں دو سال میں چوتھی بار پارلیمانی انتخابات ہو رہے ہیں۔ منگل کو ہونے والے انتخابات کو وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کے لیے ریفرنڈم بھی قرار دیا جا رہا ہے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کی رپورٹ کے مطابق عوامی رائے عامہ کے جائزوں میں سامنے آیا ہے کہ اسرائیل کے سب سے طویل عرصے تک وزیرِ اعظم رہنے والے بن یامین نیتن یاہو اور ان کے مخالفین کے مابین سخت مقابلہ ہے۔
کرونا وائرس کی وجہ سے کئی پابندیوں میں انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں نے ٹی وی انٹرویوز اور عوامی مقامات جیسے شاپنگ مال وغیرہ میں انتخابی مہم چلائی۔
بن یامین نیتن یاہو نے انتخابی مہم میں کرونا وائرس کے دوران کامیابی سے ویکسی نیشن مہم کے آغاز اور گزشتہ برس مختلف مسلم عرب ممالک سے ہونے والے معاہدوں کا پرچار کیا ہے۔
دوسری جانب نیتن یاہو کے مخالفین ان پر گزشتہ برس کرونا وبا کے دوران غلط انتظامی فیصلوں کے الزامات عائد کرتے ہیں۔ وہ الزام عائد کرتے ہیں کہ وزیرِ اعظم نے کرونا وبا میں لگائی جانے والی پابندیوں کا اطلاق اپنے انتہائی قدامت پسند سیاسی حلیفوں پر نہیں کیا جس کے باعث اسرائیل میں کرونا وائرس پھیلا۔
اُن کے بقول اس سے ایک جانب تو ملک کی معیشت کو نقصان پہنچا تو دوسری جانب اسرائیل میں بے روز گاری کی شرح میں اضافہ ہوا۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس کے ساتھ ساتھ ان کے مخالفین یہ الزام بھی عائد کرتے ہیں کہ نیتن یاہو چوں کہ بدعنوانی کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں ایسے میں ان کا حکمران رہنا اخلاقی طور پر درست نہیں ہے۔
اسرائیل میں انتخابات کے دوران رائے دہندگان امیدواروں کے بجائے سیاسی جماعتوں کو ووٹ دیتے ہیں۔ البتہ اسرائیل کی 72 سالہ تاریخ میں کبھی بھی کوئی ایک جماعت سادہ اکثریت حاصل کرکے حکومت نہیں بنا سکی ہے۔ مختلف جماعتوں کے اتحاد حکومت بناتے رہے ہیں۔
منگل کو ہونے والے انتخابات ایک ایسے موقع پر ہو رہے ہیں جب گزشتہ دسمبر میں اتحادی حکومت کو بجٹ کی منظوری میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہ اتحادی حکومت بن یامین نیتن یاہو کی لیکوڈ پارٹی اور ان کے سب سے بڑے حریف بینی گینز کی قیادت میں سیاسی جماعتوں کے اتحاد پر مشتمل تھی۔
انتخابات کے بعد حکومت سازی کے لیے کئی ہفتے لگ جاتے ہیں کیوں کہ سیاسی جماعتوں کو حکومت بنانے کے لیے دیگر جماعتوں کی حمایت کی ضرورت ہوتی ہے۔
نیتن یاہو امید ظاہر کر چکے ہیں کہ وہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق ان کے حلیف زیادہ تر سخت مؤقف رکھنے والے قوم پرست ہیں۔ جب کہ ان میں قدامت پسند اور چھوٹی مذہبی جماعتیں بھی شامل ہیں۔ ان میں سے بیشتر جماعتوں نے نسل پرست اور ہم جنس پرستوں سے نفرت کرنے والے امیدواروں کو میدان میں اتارا ہے۔
نیتن یاہو کے حریف الزام عائد کرتے ہیں کہ انہوں نے گزشتہ دو برس سے نظام کو مفلوج کیا ہوا ہے تاکہ وہ ایک ایسی حکومت قائم کریں جس میں ان کو استثنیٰ حاصل ہو یا عدالتی کارروائی بچ سکیں۔
خیال رہے کہ اسرائیل کی پارلیمنٹ ایک ہی ایوان پر مشتمل ہے جس کے اراکین کی تعداد 120 ہوتی ہے۔
حالیہ انتخابات میں لیکوڈ پارٹی کی سب سے بڑی حریف جماعت 'یش عتید' (یعنی ممکنہ مستقبل) کو قرار دیا جا رہا ہے جس کے سربراہ یائیر لاپید کو بن یامین نیتن یاہو کے متبادل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ وہ گزشتہ پارلیمان میں حزبِ اختلاف کے رہنما بھی تھے۔
لیکوڈ پارٹی کو داخلی ٹوٹ پھوٹ کا بھی سامنا ہے۔ اس کے ایک رہنما گیدون سعار نے لیکوڈ پارٹی سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے 'نیو ہوپ' (نئی امید) کے نام سے جماعت بنائی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی جماعت پر بدعنوانی کے الزامات نہیں ہیں اور یہ ملکی سطح پر متبادل قوم پرست پارٹی ہے۔ جب کہ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کی جماعت کسی ایک شخصیت کے گرد نہیں گھومتی جس نے تمام اختیارات اپنے پاس رکھے ہوئے ہوں۔
Your browser doesn’t support HTML5
اسی طرح نیتن یاہو کے سابقہ حلیف یمینہ پارٹی کے سربراہ نفتالی بنت کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ وہ حکومت کے قیام میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
گزشتہ سال مئی میں ہونے والے انتخابات میں بن یامین نتین یاہو کو امریکہ کے اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت بھی حاصل تھی۔ اس لیے انہوں نے انتخابی مہم میں ان کی تصاویر استعمال کی تھیں اور شاہراہوں پر بڑے بڑے بورڈز پر نیتن یاہو اور ڈونلڈ ٹرمپ کی تصویر آویزاں کی گئی تھیں۔ البتہ حالیہ انتخابات میں جب وائٹ ہاؤس میں امریکہ کے نئے صدر جو بائیڈن آ چکے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انتخابی مہم کے دوران اُنہوں نے شاید ہی کبھی بائیڈن کا نام لیا ہو۔
امریکہ اور اسرائیل میں گہرے تعلقات ہونے کے باوجود جو بائیڈن کا صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے لگ بھگ ایک ماہ بعد وزیرِ اعظم نیتن یاہو سے ٹیلی فونک رابطہ ہوا تھا۔