|
بدھ کو جاری آپریشن مغربی کنارے میں مہینوں میں سب سے بڑی فوجی کارروائی تھی۔ یہ ایک یاد دہانی ہے کہ اسرائیل-فلسطینی تنازعہ غزہ کی اس جنگ سے کہیں آگے تک پھیلا ہوا ہے جو 7 اکتوبر کو حماس کے حملےسے شروع ہوئی تھی۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ حملوں کو روکنے کے لیے مغربی کنارے کے عسکریت پسندوں کی بیخ کنی کر رہا ہے، جبکہ فلسطینیوں کو خدشہ ہے کہ اسرائیل جنگ کو وسیع کرنے اور انھیں ان علاقوں سے بے دخل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جہاں وہ اپنی مستقبل کی ریاست کی تشکیل چاہتے ہیں۔
اسرائیلی فوج کے ایک ترجمان، لیفٹیننٹ کرنل شوشانی نے کہا کہ "بڑی تعداد میں فوجیں" جنین میں داخل ہوئی ہیں، جو ایک طویل عرصے سے عسکریت پسندوں کا گڑھ ہے، اس کے علاوہ وہ تلکرم اور الفارہ پناہ گزین کیمپ میں بھی داخل ہوئی ہیں۔ 1948 کی مشرق وسطیٰ کی جنگ سے تعلق رکھنے والے یہ کیمپ بھی شمالی مغربی کنارے میں ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی فورسز نے تلکرم میں ایک فضائی حملے میں تین اور الفارع میں فضائی حملے میں چار عسکریت پسندوں کو ہلاک کردیا۔
انہوں نے کہا کہ مزید پانچ مشتبہ عسکریت پسندوں کو گرفتار کیا گیا، اور یہ کہ یہ کاروائی ایک زیادہ بڑے آپریشن کا پہلا مرحلہ تھی۔ فلسطینی حکام کے مطابق جنین میں اسرائیلی فائرنگ سے چار فلسطینی ہلاک ہوئے ہیں۔۔
حماس نے اعلان کیا ہےکہ بدھ کو مغربی کنارے میں اس کے 10 جنگجو مارے گئے، جن میں جنین میں ہلاک ہونے والے چار میں سے تین افراد بھی شامل ہیں۔ یہ فوری طور پر واضح نہیں ہو سکا کہ آیا چوتھا فرد عسکریت پسند تھایا نہیں۔ فوج کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے تمام عسکریت پسند تھے۔
SEE ALSO: کیا اسرائیل مغربی کنارے میں نسل پرستی کا نظام نافذ کر رہا ہے؟جنین کے گورنر کمال ابو الرب نے فلسطینی ریڈیو پر بتایا کہ اسرائیلی فورسز نے شہر کو گھیرے میں لے رکھا ہے، باہر نکلنے اور داخلے کے راستوں اور اسپتالوں تک رسائی کو بند کر دیا ہے اور کیمپ کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا ہے۔
اسرائیلی وزیرِ خارجہ اسرائیل کاٹز نے 'ایکس' پر اپنے بیان میں کہا کہ مغربی کنارے میں بھی دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنا اسی طرح ضروری ہے جس طرح وہ غزہ میں نمٹ رہا ہے۔
غزہ میں حماس کے ساتھ جاری لڑائی کے دوران امریکہ کی مذمت کے باوجود اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے میں بھی کارروائیاں کی جاتی رہی ہیں۔
مغربی کنارے میں اکتوبر 2023 کے بعد اسرائیلی فوج اور آبادکاروں کی کارروائیوں میں 640 فلسطینی جان کی بازی ہار چکے ہیں جب کہ فلسطینیوں کے حملوں میں کم از کم 19 اسرائیلی ہلاک ہو چکے ہیں۔
SEE ALSO: وہ جنگ جس میں اسرائیل عرب ممالک کو شکست دے کر خطے کی بڑی طاقت بنامغربی کنارے میں تشدد پر ایک اسرائیلی تنظیم اور یہودی سیکیورٹی اہل کار پر پابندیاں
بدھ کو ہی امریکہ نے ایک اسرائیلی غیر سرکاری تنظیم اور مغربی کنارے کےایک یہودی سیکیورٹی اہلکار پر پابندیاں نافذ کر دی ہیں، جو واشنگٹن کی جانب سے یہودی آباد کاروں کو ،جن پر وہ فلسطینیوں کے خلاف انتہا پسند تشدد کا الزام عائد کرتا ہے،سزاد ینے کی تازہ ترین کوشش ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا کہ غیر منافع بخش تنظیم’ہاشومر یوش‘ پر جس کا کہنا ہے کہ وہ آباد کاروں کو تحفظ میں مدد کرتی ہے،پہلے ہی پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ یہ تنظیم مغربی کنارے کی ایک غیر مجاز بیرونی چوکی کو مادی مدد فراہم کرتی ہے۔
SEE ALSO: مغربی کنارہ: فلسطینی گاؤں پر حملے میں 23 سالہ نوجوان ہلاک مکانات اور کاریں نذر آتش۔امریکہ کی مذمتملر نے کہا کہ جس عہدےدار پر پابندی عائد کی گئی ہے وہ یہودی بستی اتزار کے سویلین سیکیورٹی رابطہ کار اتزاک لیوی فلنت ہیں جنہوں نے فروری میں مسلح آباد کاروں کے ایک گروپ کو سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کرنے اور فلسطینیوں کو اپنی زمینیں چھوڑنے پر مجبور کرنے کےلئے گشت میں مدد فراہم کی تھی ۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ، مغربی کنارے میں انتہا پسندآباد کاروں کا تشدد انتہائی شدید انسانی مصائب کو جنم دے رہا ہے ، اسرائیل کی سیکیورٹی کو نقصان پہنچا رہا ہے، اور خطے میں امن اور استحکام کے امکانات کو متاثر کر رہا ہے
اس رپورٹ میں کچھ معلومات اے پی اور رائٹرز سے لی گئی ہیں۔