رسائی کے لنکس

آپریشن عزمِ استحکام کے لیے 20 ارب روپے جاری؛ کیا اس اقدام کا تعلق بلوچستان کے حالات سے ہے؟


  • مبصرین کا کہنا ہے کہ آپریشن عزم استحکام کا بلوچستان کی صورتِ حال سے براہِ راست تعلق نہیں ہے۔
  • ان کے بقول بلوچستان میں کسی بھی قسم کا بڑا ملٹری آپریشن نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
  • مبصرین کا کہنا ہے کہ آپریشن عزم استحکام کا اصل ہدف خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع میں قیامِ امن ہے۔
  • پاکستان میں وفاقی کابینہ نے بھی ’آپریشن عزم استحکام‘ کے لیے 20 ارب روپے جاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔
  • بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان کی صورتِ حال کو ایسے نہیں چھوڑا جا سکتا۔

بلوچستان میں ہونے والے حملوں پر امریکہ اور چین نے مذمت کی ہے۔ بیجنگ نے کہا ہے کہ چین دہشت گردی کے مقابلے کے لیے پاکستان کو ہر ممکن معاونت فراہم کرے گا۔ واشنگٹن کے مطابق امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑا رہے گا۔

پاکستان میں وفاقی کابینہ نے بھی ’آپریشن عزم استحکام‘ کے لیے 20 ارب روپے جاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔

یہ اعلان ایک ایسے موقع پر کیا گیا ہے جب دو روز قبل ہی بلوچستان میں امن وامان کی مخدوش صورتِ حال دیکھنے میں آئی اور 72 کے ہلاک ہوئے جن میں 14 سیکیورٹی اہلکار اور 21 حملہ آور بھی شامل تھے۔

حکومت نے آپریشن عزم استحکام کا اگرچہ اعلان پہلے کیا تھا اور اس میں اصل ہدف بھی خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع میں قیامِ امن قرار دیا جا رہا تھا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ آپریشن عزم استحکام کا بلوچستان کی صورتِ حال سے براہِ راست تعلق نہیں ہے۔ بلوچستان میں کسی بھی قسم کا بڑا ملٹری آپریشن نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ حکومت کو ایف سی اور پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مضبوط بنا کر ہی وہاں صورتِ حال بہتر کر سکتی ہے۔

بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان کی صورتِ حال کو ایسے نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ریاستی ادارے اس حوالے سے لازمی کوئی نئی حکمتِ عملی بنائیں گے کیوں کہ موجودہ صورتِ حال میں ریاست کی حکمتِ عملی ناکام نظر آرہی ہے۔

امریکہ اور چین کی مذمت

امریکہ کے اسلام آباد میں سفارت خانے کے ترجمان جوناتھن لالی نے حملوں کی مذمت ایک بیان میں کہا کہ بلوچستان میں حملوں کے دوران سیکیورٹی اہلکاروں اور عوام کو نشانہ بنایا گیا۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑا رہے گا۔

دوسری جانب چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے بلوچستان میں قیمتی انسانی جانوں کے نقصان پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چین دہشت گردی کے مقابلے کے لیے پاکستان کو ہر ممکن معاونت فراہم کرے گا۔

چینی ترجمان کا کہنا تھا کہ چین انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں، امن اور سماجی یکجہتی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے دوست ملک کی بھرپور حمایت جاری رکھے گا۔

بلوچستان میں عسکریت پسند گروپ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے ایک ہی دن میں موسیٰ خیل، مستونگ، بولان اور قلات میں مختلف واقعات میں 40 سے زائد افراد کو قتل کر دیا تھا جب کہ سیکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی میں 21 دہشت گرد ہلاک ہو گئے تھے۔

آپریشن عزم استحکام کے لیے رقم جاری

پاکستان کی وفاقی کابینہ کے منگل کو ہونے والے اجلاس کے بعد جاری کردہ اعلامیہ میں بتایا گیا کہ حکومت نے آپریشن عزم استحکام کے لیے 20 ارب روپے جاری کردیے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق اس آپریشن کے لیے 60 ارب روپے کی منظوری دی گئی ہے جس میں سے 20 ارب روپے کی رقم فوری طور پر جاری کی گئی ہے۔

اس رقم کے جاری ہونے کے بعد یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ یہ رقم بلوچستان کی صورتِ حال کشیدہ ہونے کے فوری بعد جاری کی گئی۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آپریشن عزم استحکام پہلے سے ہی ڈیزائن کردہ ہے اور اس میں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کو مزید سپورٹ فراہم کی جانی ہے۔ اس رقم کے جاری کرنے کا بلوچستان کی صورتِ حال سے تعلق نہیں ہے۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کے عامر رانا نے اس بارے میں وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آپریشن عزمِ استحکام کے لیے جو فنڈ مختص کیے گئے ہیں یہ بلوچستان کی صورتِ حال سے پہلے ہی رکھے گئے تھے اور ان کا بنیادی مقصد ٹی ٹی پی کے حوالے سے خیبر پختونخوا میں سیکیورٹی انفراسٹرکچر اورآپریشن کی مزید توسیع تھی۔

ان کے بقول اس وقت بلوچستان کی صورتِ حال اتنی خراب نہیں تھی اور وہ اس آپریشن کے مطابق فوکس میں نہ تھا۔ بلوچستان کی امن و امان کی صورتِ حال حکومت کے فوکس میں تھی۔ لیکن آپریشن عزمِ استحکام کا زیادہ فوکس خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقوں میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی موجودگی ہی تھا۔

پاکستان کی فوج کے سابق بریگیڈیئر حارث نواز نے اس حوالے سے کہا کہ آپریشن عزمِ استحکام پہلے سے جاری انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کی سپورٹ کے لیے ہے۔ اس میں سیکیورٹی فورسز کی کیپسٹی کو بہتر بنایا جائے گا۔ ان کو سامان فراہم کیا جائے۔ فارنزک لیبارٹریز اور ایسے آلات فراہم کیے جائیں گے جن کی مدد سے انٹیلی جنس کے موجودہ نظام کو بہتر بنا کر کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکے۔

حارث نواز کا کہنا تھا کہ اس آپریشن کی اہم بات یہ ہے کہ اس میں ریاست کے تمام اداروں کے ساتھ مل کر کام کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ اس میں دہشت گردوں کی سرکوبی کے لیے ضروری ہے کہ ان کے اسلحہ اور دیگر ضروریات کے لیے آنے والے پیسے کے راستوں کو روکا جائے۔ جیسے بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے سرحدی علاقوں میں اسمگلنگ بہت زیادہ ہے۔ اس اسمگلنگ کو کنٹرول کرکے ان کے ذرائع آمدن روکے جاسکتے ہیں۔

ان کے بقول فوج اور حکومت فنانشل دہشت گردی کو روکنا چاہتی ہے۔ منشیات اور اسمگلنگ کی کمائی ان سب میں استعمال ہو رہی ہے۔ ان کو روکنا بہت ضروری ہے۔

ان کے مطابق آرمی چیف نے بھی یہی کہا ہے کہ انہیں ہر صورت روکا جائے گا۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ پوری قوم اور ریاست کے تمام ادارے مل کر دہشت گردوں کو روکنے کے لیے کام کریں۔

حارث نواز نے کہا کہ اسی آپریشن عزم استحکام کا ایک حصہ افغانستان کے ساتھ بات چیت بھی تھا جس میں افغان حکام کو اس بات پر قائل کرنا ہے کہ جیسا انہوں نے کہا کہ ان کی سر زمین کسی صورت دہشت گردی کے پلیٹ فارم کے طور پر استعمال نہیں ہوگی۔ تو انہیں اس بات پر پابند کیا جائے کہ وہ پاکستان میں کسی صورت دہشت گردی نہ ہونے دیں اور اپنے علاقوں میں موجود دہشت گردوں کو کنٹرول کریں ۔

ان کے بقول اس کے علاوہ وہ تمام ممالک جو ٹی ٹی پی کو سپورٹ کر رہے ہیں ان کو روکنے کے لیے کارروائی کی جائے گی۔

نمل یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر قمر چیمہ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 60 ارب پہلے سے ہی جاری کیے جانے تھے کیوں کہ فوج جو پہلے ہی آپریشن میں مصروف ہے اسے سپورٹ فراہم کرنا ہے۔

ان کے مطابق آپریشن عزمِ استحکام میں ڈویلپمنٹ، آگاہی، پاکستان کےسافٹ امیج اور دیگر کئی معاملات شامل ہیں۔ اس وقت پیسے جاری ہونا صرف ایک اتفاق ہے کہ بلوچستان میں ہونے والی کارروائی کے بعد پیسے جاری ہوئے۔ لیکن یہ پہلے ہی فیصلہ کرلیا گیا تھا کہ عزم استحکام کے لیے فنڈ جاری کیے جائیں گے۔

کیا بلوچستان میں بڑا فوجی آپریشن مسئلے کا حل ہے؟

تجزیہ کار زاہد حسین نے بلوچستان کی صورتِ حال پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دو دہائیوں سے بلوچستان میں یہ سلسلہ جاری ہے اور سیکیورٹی فورسز پر حملے ہوتے رہے ہیں۔ لیکن حالیہ حملوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے بہت منصوبہ بندی کے ساتھ بڑے پیمانے پر حملے کیے۔

زاہد حسین نے کہا کہ ریاست نے جس طرح سے بلوچستان کی صورتِ حال کو ہینڈل کیا ہے اس سے ریاست کے خلاف عام بلوچوں کے دلوں میں نفرت پیدا ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مسنگ پرسنز کے ایشو کی وجہ سے بھی حالات خراب ہوئے۔ اس ایشو کی وجہ سے نوجوان باغی ہوتے رہے اور عسکریت پسندوں کے ساتھ ملتے رہے۔

بلوچستان میں حملے: کہاں کتنا نقصان ہوا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:58 0:00

ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں ایسی جماعتیں وہاں موجود تھیں جو قوم پرست تھیں۔ لیکن پاکستان کی سیاست میں اپنا واضح کردار ادا کرتی رہیں۔ اب جس طرح سے الیکشن کرائے گئے اور انہیں نمائندگی سے محروم کیا گیا اس سے قوم پرست بھی اکیلے ہوگئے ہیں۔ اس وقت بلوچستان میں کوئی ایسی سیاسی جماعتیں نہیں جو بھرپور نمائندگی کرسکے۔

انہوں نے کہا کہ آپریشن کوئی حل نہیں ہے جب تک آپ وہاں کے مقامی لوگوں کو اپنے ساتھ شامل نہیں کرتے۔ اس وقت تک صورتِ حال بہتر نہیں ہو سکتی۔ آپ پہلے بھی آپریشن کرے رہے ہیں اور آپ مزید 50 آپریشن کر لیں تب بھی صورت حال ایسی ہی رہے گی۔

بریگیڈیئر ریٹائرڈ حارث نواز نے بلوچستان کی صورتِ حال کے حوالے سے کہا کہ بلوچستان میں فوج کا کسی صورت استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ وہاں ایف سی پہلے ہی کام کر رہی ہے۔ اس کے ساتھ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے کام کر رہے ہیں۔ ایسے میں بلوچستان میں کوئی بڑا فوجی آپریشن حالات کی مزید خرابی کا باعث بن سکتا ہے۔

تجزیہ کار عامر رانا نے کہا کہ بلوچستان کے لیے سیکیورٹی فورسز موجود ہیں۔ وہاں پہلے ہی بدامنی کے تدارک کے حوالے سے کام کر رہی ہیں۔ اس بارے میں پاکستان کے وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے بھی اعلان کر دیا ہے کہ وہاں موجود سیکیورٹی فورسز سے کام لیا جائے گا۔ مزید کوئی بڑا آپریشن نہیں کیا جائے گا۔

ڈاکٹر قمر چیمہ کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی صورتِ حال سے لگ ایسے رہا ہے کہ حکومت کوئی نیا منصوبہ تشکیل دے گی کیوں کہ جس طرح بلوچستان میں عسکریت پسند تنظیمیں آپریٹ کر رہی ہیں۔ ان کے لیے روایتی طریقے ناکام ہو چکے ہیں۔ حکومت کو نئے انداز میں سوچنا ہوگا۔ ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا ہوگا جس میں ڈرون ٹیکنالوجی کے ذریعے ان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانا اور دیگر طریقے شامل ہو سکتے ہیں۔

قمر چیمہ نے مزید کہا کہ بلوچستان میں سیاسی شراکت داروں کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ بلوچ سیاسی قیادت کو موجودہ بلوچ نوجوان کس انداز میں دیکھتے ہیں۔ انہیں کس قدر عزت و احترام دیتے ہیں۔ اس وقت بلوچستان کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں باہر نکلے ہیں۔ معاشرتی لیول پر ایک مقامی انتظام کی ضرورت ہے۔

ان کے بقول بلوچستان میں نوجوان لڑکے لڑکیاں اس وقت سڑکوں پر احتجاج کرتے ہیں اور اس کے کچھ دن کے بعد کالعدم بی ایل اے سیکیورٹی فورسز اور عام لوگوں پر حملے کرتی ہے۔ اس کے بعد اب کچھ دن کے بعد دوبارہ یہی لوگ سڑکوں پر ہوں گے۔ لہذا نظر یہ آ رہا ہے کہ بلوچستان کی یوتھ معاشرتی اور عسکری دونوں طرح سے ریاست کے اوپر دباؤ بڑھا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دیکھنا یہ ہے کہ ریاست کس انداز میں اس صورتِ حال کو ہینڈل کرتی ہے۔ حکومت بلوچستان کی نئی سیاسی قیادت کے ساتھ بات چیت کرے گی یا پھر موجودہ سیاسی قائدین کو ہی صورتِ حال کو بہتر بنانے کے لیے آگے کیا جائے گا۔ اس بارے میں حکومت کی حکمتِ عملی سامنے آنے کے بعد ہی صورتِ حال واضح ہو سکے گی۔

XS
SM
MD
LG