’توانائی پالیسی کی دستاویز کو معاشرے کے مختلف شعبہ جات سے متعلق افراد کو روانہ کیا گیا ہے، تاکہ مسائل کی کُھل کر نشاندہی ہو اور پالیسی مزید جامع صورت اختیار کرے‘
وزیر اعظم کے مشیر برائے توانائی، مصدق ملک کا کہنا ہے کہ حکومت نے تحیہ کر رکھا ہے کہ بجلی کے بحران سے نمٹنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جائیں گے۔
اُنھوں نے کہا کہ ’مشترکہ مفادات کونسل‘ کے اجلاس کے بعد ضروری مزید مشاورت کے لیے ایک ہفتہ کا وقت دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت مسئلے کے مختلف پہلوؤں کو نظر میں رکھتے ہوئے، وسیع تر تجاویز پر مبنی حکمت عملی کو عملی جامہ پہنانے میں سنجیدہ ہے۔
’وائس آف امریکہ‘ کو دیے گئےایک انٹرویو میں، اُنھوں نے اِس امید کا اظہار کیا کہ توانائی کے بحران کو آئندہ تین سے چار برس کے اندر اندر حل کرلیا جائے گا۔
اُنھوں نے بتایا کہ توانائی سے متعلق پالیسی دستاویز کو معاشرے کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد کو روانہ کیا گیا ہے، جِن میں صحافی بھی شامل ہیں، تاکہ مسائل کی کھل کر نشاندہی ہو اور اُن کا سوچا جاسکے۔
توانائی کے جاری مسئلے سےمتعلق چار چیدہ چیدہ اجزا کے حوالے سے، مصدق ملک نے کہا کہ بجلی کی طلب اور رسد میں بہت بڑا فرق ہے؛ دوسرے یہ کہ بجلی کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں؛ تیسرے، نااہلی اور بجلی چوری کا معاملہ درپیش ہے؛ اور چوتھے، بنیادی ڈھانچے کی کمزوریاں اور تکنیکی وجوہات کا سامنا ہے۔
مصدق ملک نے کہا کہ بجلی استعمال کرنے پر صوبوں اور نجی اداروں کے ذمے کثیر رقوم واجب الادا ہیں، جس معاملے کا مثبت اور فوری تدارک ضروری ہے۔
عمل درآمد کے حوالے سے، اُنھوں نے کہا کہ پالیسی تشکیل دی جا چکی ہے، اور اب صرف دستاویز پر دریافت کی گئی مختلف آرا اور تجاویز کا انتظار ہے، تاکہ اسے مزید ہمہ جہت بنایا جاسکے۔
اُنھوں نے کہا کہ بجلی تیار کرنے کے تمام کم قیمت ذرائع پر دھیان مرکوز رہے گا، مثلاً آبی ذرائع، بایو گیس اور کوئلہ؛ جب کہ، فرنس آئل اور ڈیزل کے مہنگے طریقوں پر انحصار کو مکمل طور پر ختم کیا جائے گا۔
مصدق ملک نے بتایا کہ ’ٹیرف‘ کے نظام میں درستگی کے لیے کوششیں جاری ہیں، اور محصول کے طریقہ کار کو بہتر بنا کر، 500ارب ڈالر مالیت کی سالانہ سبسڈی سے نجات حاصل کرنا ممکن ہوگی، جو ’سرکلر ڈیٹ‘ کا موجب بنتی ہے۔
تفصیل کے لیے آڈیو رپورٹ پر کلک کیجئیے:
اُنھوں نے کہا کہ ’مشترکہ مفادات کونسل‘ کے اجلاس کے بعد ضروری مزید مشاورت کے لیے ایک ہفتہ کا وقت دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت مسئلے کے مختلف پہلوؤں کو نظر میں رکھتے ہوئے، وسیع تر تجاویز پر مبنی حکمت عملی کو عملی جامہ پہنانے میں سنجیدہ ہے۔
’وائس آف امریکہ‘ کو دیے گئےایک انٹرویو میں، اُنھوں نے اِس امید کا اظہار کیا کہ توانائی کے بحران کو آئندہ تین سے چار برس کے اندر اندر حل کرلیا جائے گا۔
اُنھوں نے بتایا کہ توانائی سے متعلق پالیسی دستاویز کو معاشرے کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد کو روانہ کیا گیا ہے، جِن میں صحافی بھی شامل ہیں، تاکہ مسائل کی کھل کر نشاندہی ہو اور اُن کا سوچا جاسکے۔
توانائی کے جاری مسئلے سےمتعلق چار چیدہ چیدہ اجزا کے حوالے سے، مصدق ملک نے کہا کہ بجلی کی طلب اور رسد میں بہت بڑا فرق ہے؛ دوسرے یہ کہ بجلی کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں؛ تیسرے، نااہلی اور بجلی چوری کا معاملہ درپیش ہے؛ اور چوتھے، بنیادی ڈھانچے کی کمزوریاں اور تکنیکی وجوہات کا سامنا ہے۔
مصدق ملک نے کہا کہ بجلی استعمال کرنے پر صوبوں اور نجی اداروں کے ذمے کثیر رقوم واجب الادا ہیں، جس معاملے کا مثبت اور فوری تدارک ضروری ہے۔
عمل درآمد کے حوالے سے، اُنھوں نے کہا کہ پالیسی تشکیل دی جا چکی ہے، اور اب صرف دستاویز پر دریافت کی گئی مختلف آرا اور تجاویز کا انتظار ہے، تاکہ اسے مزید ہمہ جہت بنایا جاسکے۔
اُنھوں نے کہا کہ بجلی تیار کرنے کے تمام کم قیمت ذرائع پر دھیان مرکوز رہے گا، مثلاً آبی ذرائع، بایو گیس اور کوئلہ؛ جب کہ، فرنس آئل اور ڈیزل کے مہنگے طریقوں پر انحصار کو مکمل طور پر ختم کیا جائے گا۔
مصدق ملک نے بتایا کہ ’ٹیرف‘ کے نظام میں درستگی کے لیے کوششیں جاری ہیں، اور محصول کے طریقہ کار کو بہتر بنا کر، 500ارب ڈالر مالیت کی سالانہ سبسڈی سے نجات حاصل کرنا ممکن ہوگی، جو ’سرکلر ڈیٹ‘ کا موجب بنتی ہے۔
تفصیل کے لیے آڈیو رپورٹ پر کلک کیجئیے:
Your browser doesn’t support HTML5