کیریبین جزیرے جمیکا میں، جو گانجے اور چرس کی کاشت کی وجہ سے عالمی شہرت رکھتا ہے، شدید بارشوں کے بعد طویل عرصے تک خشک سالی، مقامی طور پر چرس کی طلب میں اضافے اور گانجے کی کاشت میں کمی کی باعث قلت پیدا ہو گئی ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق جمیکا میں مختلف وجوہات کے سبب ملک میں قائم بازاروں میں چرس اور گانجے کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ جو کہ ماہرین کے مطابق اب تک کی بد ترین قلت ہے۔
جمیکا میں قانونی طور پر گانجے اور چرس کی صنعت کے لیے کام کرنے والی کمپنی ‘ٹاکایا’ سے منسلک ٹرسٹن تھامپسن کا کہنا ہے کہ گانجے اور چرس کی قلت ان کے لیے ‘ثقافتی شرمندگی’ کا باعث ہے۔
جمیکا کو سیاحوں کے لیے ‘چرس کی جنت’ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہاں 2015 میں گانجے کی طبی مقاصد کے لیے استعمال کی منظوری دی گئی تھی اور گانجے کی مخصوص مقدار میں کاشت کو جرائم کی فہرست سے خارج کر دیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ گانجا چرس کی خام شکل ہوتی ہے۔ گانجے میں مختلف اجزا شامل کرکے چرس بنائی جاتی ہے۔ البتہ ان دونوں کا استعمال بیشتر افراد نشے کے طور پر کرتے ہیں۔
نئے قوانین کے مطابق ایسے افراد جو دو اونس یعنی 56 گرام سے کم گانجے یا چرس کے ساتھ پکڑے جائیں گے انہیں صرف معمولی جرمانے کی سزا دی جاتی ہے۔ جب کہ انہیں گرفتار نہیں کیا جاتا اور نہ ہی ان کا کوئی فوجداری جرائم کا ریکارڈ بنتا ہے۔
ملک میں گانجے کے پانچ مختلف پودوں کی اقسام کاشت کرنے کی اجازت ہے۔ جب کہ ‘رستافری’ مذہب سے تعلق رکھنے والوں کو تہذیبی طور پر چرس پینے کی اجازت ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
تاہم ان قوانین پر عمل درآمد کم ہوتا ہے۔ سیاح با آسانی سڑکوں سے غیر قانونی طور گانجا یا چرس خرید سکتے ہیں۔ گانجے اور چرس کی پیداوار میں کمی ہونے کے باعث اس کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ بھی ہو رہا ہے۔
غیر قانونی طور پر گانجے کی کاشت کرنے والے کسانوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس طوفانوں کے موسم میں ہونے والی شدید بارش کے باعث پہلے گانجے کی پیداوار متاثر ہوئی جس کے بعد مسلسل خشک سالی کی وجہ سے ہزاروں ایکڑ پر پھیلے گانجے کے کھیت تباہ ہونے سے مالی نقصان ہوا۔
جمیکا کے جنوب مشرقی حصے میں گانجے کی کاشت کرنے والے ڈینئل بورزا کا کہنا ہے کہ شدید بارش کی وجہ سے سب کچھ تباہ ہو گیا ہے۔
انتیس سالہ کرنیک ویلس جو کہ دیگر 20 کسانوں کے ساتھ اکمپونگ کے علاقے میں دو ایکڑ زمین پر گانجا کاشت کرتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کی وجہ سے شام چھ بجے کے بعد لگائے گئے کرفیو کی وجہ سے کسان معمول کے مطابق رات گئے فصلوں میں کام نہیں کر سکتے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ٹرانسپورٹ کے مسائل اور کمی کی وجہ سے کسانوں کو پیدل چل کر کھیتوں میں جانا پڑتا ہے جس کے بعد وہ پیدل چل کر کنوؤں سے پانی حاصل کرنے جاتے ہیں۔
کرونا کے باعث نافذ کرفیو کی وجہ سے بہت سے کسان یہ سب کچھ نہیں کر پاتے۔
ویلس کا مزید کہنا تھا کہ انہیں حالیہ مہینوں میں 18 ہزار ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا ہے اور وہ صرف 300 پاؤنڈز (لگ بھگ ڈیڑھ کلو) گانجا کاشت کر سکے ہیں۔ جب کہ پہلے ان کا گروپ 700 سے 800 پاؤنڈز (تین سے ساڑھے تین کلو) گانجا کاشت کرتا تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا اور قوانین میں آسانی کی وجہ سے مقامی طور پر گانجے اور چرس کی طلب میں اضافہ ہوا ہے جس کے باعث اس کی قلت پیدا ہوئی ہے۔