برطانیہ کے شہزادہ ولیم اور ان کی اہلیہ کیٹ مڈلٹن بحیرہ کیربیئن کی ریاست جمیکا کے دورے پر تھے۔جب اس دوران ایک فوٹو سیشن کے موقعے پر جمیکا کے وزیرِِ اعظم اینڈریو ہولنیس نے کہا کہ ان کا ملک اب تاجِ برطانیہ سے مکمل آزادی چاہتا ہے اور کئی حل طلب مسائل باقی ہیں۔
برطانوی شاہی مہمان کے لیے یہ ممکن ہے جمیکا کے وزیر اعظم کا یہ اعلان حیرت کا باعث بنا ہو لیکن گزشتہ ہفتے میں بحیرۂ کیربیئن میں برطانیہ کی سابق نوآبادیات کے دورے پر انہیں برطانوی عہد کی تاریخ سے متعلق کئی سوالات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
بدھ کو جمیکا میں شہزادہ ولیم نے اپنے خطاب میں اپنی دادی ملکہ الزبتھ کو سربراہ مملکت کے منصب سے ہٹانے کی اس تجویز پر اظہارِ خیال نہیں کیا لیکن سلطنتِ برطانیہ جس پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا اب دولتِ مشترکہ میں بھی علامتی طور پر اس کے تحت آنے والی ریاستوں میں کمی آنا شروع ہوگئی ہے۔
شہزادہ ولیم اور ان کی اہلیہ کے دورۂ جمیکا سے چار ماہ قبل کیربیئن میں واقع ایک اور ملک بارباڈوس باضابطہ طور پر ملکۂ برطانیہ کو سربراہِ مملکت کے منصب سے ہٹا کر آزاد جمہوریہ بننے کا اعلان کرچکا ہے۔
برطانیہ کے شاہی جوڑے کے جمیکا آنے سے قبل ہی مقامی حکام کہہ چکے تھے کہ وہ آئین کی تشکیل نو کرکے آزاد جمہوریہ بنانے پر غور شروع کرچکے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جمیکا کو برطانوی اختیار سے نکلنے کے لیے ریفرنڈم کرانا ہوگا اور اس کے لیے برسوں درکار ہوں گے۔
کیربیئن میں برطانوی نو آبادیات کی تاریخ
برٹش لائبریری کی ویب سائٹ کے مطابق جمیکا تین سو برس تک سلطنتِ برطانیہ کے زیرِ تسلط رہا ہے۔ یہ بھی خلیجِ میکسیکو اور شمالی امریکہ کے جنوب مشرق میں پائے ج والے اس خطے کے جزائر میں شامل ہے جسے غرب الہند یا کیربیئن کہا جاتا ہے۔ 18 ویں صدی میں برطانیہ نےشکر اور الکحل وغیر کی پیداوار کے لیے یہاں گنے کی کاشت کا آغاز کیا تھا۔ اس کے لیے لاکھوں افراد کو غلام بنا کر یہاں لایا گیا تھا اور انہیں سفاکانہ برتاؤ کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
غلام بنائے گئے افریقی باشندوں نے سلطنتِ برطانیہ کے مظالم کے خلاف کئی مرتبہ بغاوتیں بھی کیں۔ ان بغاوتوں کے نتیجے میں ’جمیکن مرونز‘ باشندے آزادی حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے اور اس کے بعد برطانوی انہیں دوبارہ غلام نہیں بنا سکے۔ اسی نوآبادیاتی تاریخ کی وجہ سے جمیکا میں برطانوی عہد کے برتاؤ سے متعلق غم و غصہ بھی پایا جاتا ہے۔
برطانوی تاریخ دان رابرٹ لیسی کا کہنا ہے کہ درحقیقت جمیکا غلاموں کی ایک کالونی تھی جسے برطانیہ نے غلاموں کی تجارت کے لیے بسایا تھا۔ یہاں بھی امریکہ کی جنوبی ریاستوں کی طرح مغربی افریقہ سے غلاموں کو جمیکا اور بارباڈوس میں گنے اور کپاس کی کاشت کے لیے لایا گیا تھا۔
لیسی کے مطابق برطانیہ نے 1807 میں غلامی کو غیر قانونی قرار دیا۔ اس وقت تک برطانیہ نے غلاموں کے کاروبار سے سے بے پناہ دولت کمائی تھی۔ بعدازاں 1833 میں غلامی کے خاتمے کے لیے باقاعدہ قانون منظور کرلیا گیا۔
جمیکا اور دولت مشترکہ
پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے بعد برطانیہ کی سلطنت بتدریج کمزور ہوتی چلی گئی۔ معاشی مفادات کے پیشِ نظر برطانیہ نے پہلی عالمی جنگ کے بعد اپنی نو آبادیات میں شامل علاقوں کو بتدریج انتظامی اختیارات دینا شروع کردیے تھے لیکن انہیں برطانوی سلطنت کے تابع ہی رکھا گیا تھا۔اس کے لیے 1926 میں دولتِ مشترکہ بنائی گئی تھی۔
SEE ALSO: ملکہ برطانیہ کا ستر سالہ دورِ اقتدار: ایک اتفاق جو طویل ترین حکمرانی میں بدل گیاانسائیکلوپیڈیا آف بریٹینکا کے مطابق 1949 میں اعلانِ لندن کے بعد دولتِ مشترکہ کو حالیہ شکل میں لایا گیا جس میں 54 ریاستیں شامل ہیں۔ماضی میں صرف برطانیہ کی نوآبادیات رہنے والے ممالک ہی دولتِ مشترکہ میں شامل ہوسکتے تھے لیکن گزشتہ کچھ عرصے میں روانڈا اور موزمبیق جیسے ممالک بھی اس کا حصہ بنے ہیں جو کبھی برطانوی نوآبادیات میں شامل نہیں رہے۔
برطانوی سلطنت کے کمزور ہونے کے بعد دولتِ مشترکہ کی حیثیت بھی علامتی ہو گئی۔ ابتدا میں برطانوی فرماں روا دولتِ مشترکہ کا سربراہ ہوتا تھا۔ آْزادی کے بعد بھارت اور پاکستان نے علیحدہ جمہوریہ بننے کے ساتھ ساتھ دولتِ مشترکہ میں شامل رہنے کی خواہش کا بھی اظہارکیا تھا۔ 1949 تک دولت مشترکہ میں شمولیت کے لیے برطانوی فرماں رواں کو سربراہِ مملکت تسلیم کرنے شرط ختم کردی گئی تھی۔ اس کے بعد یہ ممالک دولتِ مشترکہ کا حصہ بنے۔
اگرچہ پاکستان نے 1972 میں بنگلہ دیش کو رکنیت دینے پر احتجاج کرتے ہوئے دولتِ مشترکہ سے علیحدگی اختیار کرلی تھی لیکن بعدازاں 1989 میں پاکستان دوبارہ دولتِ مشترکہ کا حصہ بن گیا تھا۔ دولتِ مشترکہ کی تشکیلِ نو کے بعد ملکۂ برطانیہ اس کی سربراہی کے ساتھ ساتھ آسٹریلیا، کینیڈا اور نیوزی لینڈ سمیت 15 ممالک کی سربراہِ مملکت بھی ہیں۔
کیربیئن میں 1950 اور 1960 کی دہائی میں نوآبادیات پر برطانیہ کا تسلط کمزور ہونے لگا اور کئی ریاستیں آزاد ہوئیں۔ 1962 میں جمیکا بھی برطانیہ سے آزاد ہونے والی ریاستوں میں شامل ہے۔ لیکن کیربیئن میں آزاد ہونے والی دیگر ریاستوں کی طرح جمیکا دولتِ مشترکہ کا حصہ رہا اور اس کی سربراہِ مملکت ملکۂ برطانیہ ہیں۔
آزادی اور تلافی کے مطالبات
جمیکا کے دورے کے موقعے پر برطانیہ کے شہزادہ ولیم نے غلامی کے دور میں ہونے والے برتاؤ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ہماری تاریخ پر ایک دھبہ ہے۔
شاہی جوڑے کے جمیکا آنے سے قبل بھی مختلف سماجی تنظیمیں برطانوی نوآبادیاتی دور میں غلامی اور امتیازی سلوک پر احتجاج کرتی رہی ہیں۔ وہ برطانیہ کے شاہی خاندان سے غلام بنائے گئے افریقی باشندوں کے لواحقین سے معافی مانگنے کا مطالبہ بھی کرتے ہیں۔
SEE ALSO: ملکۂ برطانیہ کی دو بار سال گرہ کیوں ہوتی ہے؟گزشتہ برس جمیکا کی حکومت نے چھ لاکھ افریقیوں کو گنے اور کیلے کی کاشت کے لیے غلام بنانے کے بدلے برطانیہ سے زرِ تلافی کا مطالبہ بھی کیا تھا اور گزشتہ ہفتے جمیکا کے وزیرِ اعظم اینڈریو ہولنیس نے باقاعدہ طور پر ملکہ کو سرابراہ مملکت کے منصب سے ہٹا کر مکمل خود مختار ریاست بننے کا عندیہ دیا ہے۔
اگر ایسا ہوتا ہے تو دولتِ مشترکہ میں جمیکا ایسا کرنے والا پہلا ملک نہیں ہوگا۔ اس سے قبل کیربیئن میں گوانا نے 1970 میں یہ فیصلہ کیا تھا۔
اس کے علاوہ 1976 میں ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوبیگو اور 1978 میں ڈومینیکا نے بھی یہی فیصلہ کیا۔ گزشتہ برس بارباڈوس نے بھی ملکہ کے لیے سربراہِ مملکت کا عہدہ ختم کردیا۔ البتہ یہ چاروں ممالک دولتِ مشترکہ کا حصہ ہیں۔
برطانیہ اور جمیکا کے تعلقات
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق برطانوی شاہی خاندان کا کہنا ہے کہ برطانیہ اور جمیکا کے درمیان مضبوط تجارتی تعلقات پائے جاتے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق 55 ہزار برطانوی شہری جمیکا میں رہتے ہیں جب کہ جمیکا سے تعلق رکھنے والے آٹھ لاکھ افراد برطانیہ میں بستے ہیں۔ برطانیہ میں بسنے والے کیریبیئن باشندوں کو ملازمتوں کے حصول میں قانونی رکاوٹیں آنے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں تلخی آنا شروع ہوئی۔
برطانیہ میں کئی برسوں سے مقیم کیربیئن باشندوں سے ملازمتوں، رہائش اور طبی سہولتوں کے لیے دستاویزات طلب کی جارہی تھیں اور ان میں سے بعض افراد کو ملک بدر بھی کیا گیا تھا۔ ان واقعات برطانیہ نے معافی مانگی تھی اور تلافی کا وعدہ بھی کیا تھا۔
اس تحریر میں شامل بعض معلومات خبر رساں اداروں ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ اور ’رائٹرز‘ سے لی گئی ہیں۔