کیپٹل ہل حملہ: 'تحقیقاتی پینل جاننا چاہتا ہے کہ ٹرمپ نے مظاہرین کو کیوں نہیں روکا'

چھ جنوری کو یو ایس کیپٹل بغاوت کی تحقیقات کرنے والا کانگریس پینل

امریکہ میں جمہوریت کی علامت سمجھی جانے والی عمارت کیپٹل ہل پر گزشتہ برس چھ جنوری کو ہونے والے حملے کی تحقیقات کرنے والی کانگریس کی کمیٹی اس بات پر توجہ مرکوز کر رہی ہے کہ اُس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حامیوں کو عمارت میں توڑ پھوڑ سے کیوں نہیں روکا۔

کمیٹی یہ جاننے کی بھی کوشش کر رہی ہے کہ بلوائیوں کو پولیس کے ساتھ جھڑپوں سے روکنے کے لیے صدر نے تین گھنٹے سے زیادہ وقت میں کیوں کچھ نہیں کیا۔ یہ ہنگامہ آرائی اس وقت ہو رہی تھی جب کیپٹل ہل میں قانون ساز 2020 کے انتخابات میں صدر ٹرمپ کی ہار کی توثیق کر رہے تھے۔

یہ بات کیپٹل ہل پر حملے کی تحقیق کرنے والے کانگریس کے پینل کے چیئرمین بینی تھامسن نے نشریاتی ادارے 'سی این این' کے اسٹیٹ آف دی یونین پروگرام میں شرکت کرتے ہوئے بتائی۔

انہوں نے کہا کہ نو رکنی تحقیقاتی پینل یہ جاننا چاہتا ہے کہ 187 منٹ کے دوران جب صدر ٹرمپ نے اس سلسلے میں کوئی اقدام نہ اٹھایا تو وہ کیا کر رہے تھے، جب کہ انہوں نے وائٹ ہاؤس کے اوول آفس کے باہر ایک کھانے کے کمرے سے ٹیلی ویژن پر ہنگامہ آرائی کو خود دیکھا۔

کانگریس مین تھامسن نے کہا کہ "یہ وہ وقت تھا جب ہم اپنی جمہوریت کو کھونے کے خطرناک حد تک قریب پہنچ گئے تھے۔"

ریاست وومنگ سے ری پبلکن پارٹی کی طرف سے منتخب ہونے والی نمائندہ لز چینی، جو کہ ٹرمپ کی شدید ناقد ہیں، نے اے بی سی چینل کے 'دِس ویک' شو میں بتایا کہ ٹرمپ فساد کرنے والوں کو پیچھے ہٹنے کا کہہ سکتے تھے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔

چیئرمین تھامسن نے کہا کہ سابق صدر عدالت میں اپنی فون کالز، پیغامات اور دستاویزات کا ریکارڈ دیکھنے سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں جب کہ اس وقت ان کی بیٹی ایوانکا ٹرمپ، ری پبلکن قانون سازوں اور ان کی انتظامیہ نے ان پر زور دیا تھا کہ وہ ایسا بیان دیں جس میں صدر اپنے آٹھ سو سے زائد حامیوں کو کانگریس کی عمارت سے نکل جانے کا کہیں۔

کانگریس کمیٹی کے چیئرمین تھامسن نے کہا کہ سابق صدر جو کچھ کر رہے ہیں وہ ڈونلڈ ٹرمپ کا عام طریقہ کار ہے، وہ مقدمہ کرتے ہیں، عدالت جاتے ہیں، تاخیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن یقین ہے کہ ان 187 منٹ میں جو کچھ ہوا ہمیں اُس تک رسائی حاصل ہو گی۔

سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کا ایک ہجوم 6 جنوری 2021 کو واشنگٹن میں امریکی کیپیٹل بلڈنگ پر دھاوا بولتے ہوئے (فوٖٹو-رائٹرز)

خیال رہے کہ واشنگٹن میں ایک اپیل کورٹ نے فیصلہ دے رکھا ہے کہ تحقیقاتی کمیٹی فسادات اور اس کی منصوبہ بندی سے متعلق کسی بھی دستاویزات کو دیکھنے میں "منفرد طور پر اہم دلچسپی" رکھتی ہے۔ لیکن ٹرمپ نے سپریم کورٹ سے نچلی عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی اپیل کی ہے، ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے وقت کے دوران وائٹ ہاؤس کی دستاویزات کو منظر عام پر لانے سے بچایا جانا چاہیے۔

یاد رہے کہ چھ جنوری 2021 کو کیپٹل ہل پر ہنگامہ آرائی ہونے سے قبل ٹرمپ نے اپنے حامیوں سے کہا تھا کہ وہ کیپٹل پر اپنے پورے زور سے لڑیں تاکہ قانون ساز موجودہ صدر جو بائیڈن کی نومبر 2020 کے الیکشن میں ان کے خلاف کامیابی کی توثیق نہ کر پائیں۔

ہنگاموں میں ملوث اب تک 725 سے زائد افراد کو گرفتار کر کے ان کے خلاف قانون کی مختلف خلاف ورزیاں کرنے پر فرد جرم عائد کر دی گئی ہیں۔ ان خلاف ورزیوں میں کانگریس کی عمارت میں بلا اجازت داخل ہونے کی قانون شکنی سے لے کر پولیس پر حملے جیسے سنگین جرائم شامل ہیں۔

شروع میں مظاہرین کو روکنے کی گزارشوں کو نظر انداز کرنے کے بعد سابق صدر نے آخر کار ایک چھوٹے سے ویڈیو پیغام میں مظاہرین سے کہا تھا کہ وہ اس مقام سے چلے جائیں لیکن ساتھ ہی انہوں نے کہا تھا "ہم آپ سے محبت کرتے ہیں، آپ بہت ہی خاص (لوگ) ہیں۔"

SEE ALSO: 'کیواے نان شیمن' کے نام سے مشہور کیپیٹل ہل پر دھاوا بولنے والے شخص کو 41 ماہ کی قید

ٹرمپ نے ویڈیو پیغام میں من گھڑت سازشی مفروضوں کے حوالے بھی دیے تھے اور دعویٰ کیا تھا کہ وہ انتخابات جیت چکے تھے۔

انہوں نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا "میں آپ کے درد سے واقف ہوں، مجھے علم ہے کہ آپ کو اس بات کا دکھ ہے، یہ الیکشن ہم سے چرایا گیا تھا، یہ ایک مکمل (کامیابی کا) الیکشن تھا اور یہ بات ہر کوئی جانتا ہے، خاص طور پر ہمارے حریف، لیکن اب آپ کو گھر جانا ہے (اور) ہمیں امن بھی چاہیے۔"

کیپیٹل ہل کو آخر کار بلوائیوں سے خالی کرانے کے بعد کانگریس نے سات جنوری کی علی الصباح صدر بائیڈن کی انتخابی کامیابی کی توثیق کی تھی۔

چیئرمین تھامسن نے کہا ہے کہ ان کا پینل، جو کہ ڈیموکریٹک اور ری پبلکن ارکان پر مشتمل ہے، اس بات پر غور کر رہا ہے کہ کیپٹل ہل پر حملے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔

یاد رہے کہ اُس وقت ری پبلکن پارٹی کے کچھ بڑے رہنما سابق صدر کو ان کے عہدے پر فائز رکھنے اور نئے صدر بائیڈن کی بیس جنوری کی افتتاحی تقریب کو روکنے کی کوشش کر رہے تھے۔

تھامسن نے کہا کہ ہمیں اس بات کا علم ہے کہ ٹرمپ لوگوں کو واشنگٹن میں دیکھنا چاہتے تھے اور انہوں نے یہ کہہ رکھا تھا کہ حالات بے قابو ہوں گے۔

SEE ALSO: کیپیٹل ہل پر حملہ: 170 ملوث افراد پر جرائم کے مقدمات

تھامسن کے بقول وائٹ ہاؤس کے قریب واقع ولرڈ ہوٹل میں ٹرمپ حکام اور وائٹ ہاؤس کے اہلکاروں کے درمیان ہونے والی گفتگو، خاص طور پر دلچسپ ہوگی جو کیپٹل ہل پر ہنگامہ آرائی سے قبل ہوئی تھی۔

'اے بی سی' چینل کے ساتھ ایک دوسرے انٹرویو میں کانگریس مین تھامسن نے کانگریس کی عمارت پر حملے کے متعلق کہا کہ ایسا دکھائی دے رہا تھا کہ کسی اچانک واقع کے نمودار ہونے کے مقابلے میں یہ کئی لوگوں کی طرف سے الیکشن کو ٹھیس پہنچانے کی ایک منظم کوشش تھی۔

ان کے بقول ایسا نہیں تھا کہ اچانک بے قابو ہو کر لوگوں نے کیپٹل ہل پر دھاوا بول دیا، اس کی حدود پھلانگ دیں، عمارت کی کھڑکیاں، دروازے توڑ ڈالے اور پولیس سے ہاتھا پائی کی۔

اس ضمن میں تحقیقاتی کمیٹی کے چیئرمین نے کہا کہ وہ ٹرمپ کے حامی، دو ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے کانگریس کے رکن، ریاست پینسلوینیا کے اسکاٹ پیری اور ریاست اوہایو کے جم جارڈن، کے انٹرویوز کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کیوں کہ ان دونوں نے صدر بائیڈن کی کامیابی کو الٹنے کی کوشش کی تھی۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ دونوں ارکان رضا کارانہ طور پر کمیٹی کے سامنے پیش ہوں گے لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو انہیں قانون کے تحت بلایا جائے گا۔

تھامسن نے اس بارے میں قیاس آرائی کرنے سے انکار کر دیا کہ آیا کمیٹی 6 جنوری کے مظاہرے کی منصوبہ بندی میں غلط کاموں کے شواہد اور اس کے دوران ٹرمپ کے اقدام نہ کرنے کے رویے پر ممکنہ قانونی چارہ جوئی کے لیے محکمۂ انصاف کو بھیج سکتی ہے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ اگر اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی تو کمیٹی کو ایسا کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوگی۔

یاد رہے کہ ٹرمپ نے موجودہ صدر بائیڈن کی بیس جنوری 2021 کو ہونے والی افتتاحی تقریب میں شرکت نہیں کی تھی اور وہ اب تک یہ دعویٰ کرتے آرہے ہیں کہ ان سے 2020 کا الیکشن چرایا گیا تھا۔

دریں اثنا ٹرمپ نے سیاسی سرگرمیوں میں شرکت تیز کر رکھی ہے اور عندیہ دیا ہے کہ وہ ممکنہ 2024 الیکشن مہم میں حصہ لے کر دوبارہ وائٹ ہاؤس حاصل کرلیں گے۔

انہوں نے ریاست فلوریڈا میں بحر اوقیانوس کے ساحل کے پاس واقع اپنی رہائش گاہ پر جمعرات کو کیپیٹل ہل پر حملے کی پہلی برسی کے موقع پر نیوز کانفرنس کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔