جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں جسٹس عائشہ ملک کو بطور جج سپریم کورٹ تعینات کرنے کے حوالے سے اتفاق رائے نہ ہونے اور اکثریتی ووٹ نہ ملنے کے باعث ان کی تعیناتی نہ ہوسکی۔ جسٹس عائشہ ملک کی تعیناتی کا معاملہ ٹائی ہوگیا اور کمیشن کے چار چار ارکان نے حق اور مخالفت میں ووٹ دیا۔
کمیشن کا اجلاس چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں ہوا۔ اس اجلاس سے قبل پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار ایسویسی ایشن اور دیگر بار کونسلز نے سپریم کورٹ کے باہر جسٹس عائشہ ملک کی تعیناتی پر شدید احتجاج کیا۔
جوڈیشل کمیشن کی کارروائی
پاکستان میں سپریم کورٹ کے ججز کی تعیناتی کے لیے آئین کے آرٹیکل 175 کے تحت قائم کردہ جوڈیشل کمیشن چیف جسٹس کی سربراہی میں کام کرتا ہے۔
اس کے ارکان کی تعداد نو ہے جن میں چیف جسٹس کے علاوہ سپریم کورٹ کے چار سینئر ترین جج، ایک سپریم کورٹ کا سابق جج، وفاقی وزیرِ قانون، اٹارنی جنرل اور پاکستان بار کونسل کا ایک نمائندہ شامل ہوتا ہے۔
آئین کے مطابق چیف جسٹس کی طرف سے کسی بھی ہائی کورٹ کے جج کو سپریم کورٹ کا جج بنانے کے لیے تجویز دی جاتی ہے اور پھر اکثریتی ووٹ کی بنیاد پر اس کے نام کی منظوری دی جاتی ہے۔
حالیہ عرصہ میں یہ پہلی مرتبہ ہے کہ چیف جسٹس کی طرف سے دیے گئے نام پر کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا ہے۔
عائشہ ملک کے حق اور مخالفت میں ووٹ
جمعرات کو ہونے والے اجلاس میں چیف جسٹس گلزار احمد، جسٹس عمر عطا بندیال، اٹارنی جنرل اور وزیر قانون نے جسٹس عائشہ ملک کی تعیناتی کے حق میں ووٹ دیا۔
جسٹس سردار طارق، جسٹس مقبول باقر، سابق جج جسٹس دوست محمد اور پاکستان بار کونسل کے نمائندے نے ان کے خلاف ووٹ دیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
کمیشن کے رکن جسٹس فائز عیسیٰ ملک سے باہر ہیں اور انہوں نے اپنا تحریری یا زبانی کوئی مؤقف نہیں دیا۔
’سپریم کورٹ کا جج بننے کے لیے کمیشن کا اکثریتی ووٹ لازمی‘
سپریم کورٹ میں مقدمات کی رپورٹنگ کرنے والے سینئر صحافی عبدالقیوم صدیقی کہتے ہیں کہ تکنیکی طور پر جسٹس عائشہ ملک کا نام مسترد کہا جا سکتا ہے کیوں کہ جج بننے کے لیے جوڈیشل کمیشن میں اکثریتی ووٹ ہونا ضروری ہے۔ اکثریت نہیں تھی لہٰذا وہ جج نہیں بن سکتیں۔
عبد القیوم صدیقی کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں اٹارنی جنرل نے کمیشن سے معاملہ ڈیفر کرنے کے لیے بھی کہا تھا البتہ کمیشن کے ارکان نے اس پر ووٹنگ کرائی اور معاملہ چار چار سے ٹائی ہو گیا جس کے بعد کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا۔
’جسٹس عائشہ ملک کا نام دوبارہ جوڈیشل کمیشن میں پیش نہیں کیا جائے گا‘
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر امان اللہ کنرانی کہتے ہیں کہ تکنیکی بنیادوں پر جسٹس عائشہ ملک کا نام اب شاید دوبارہ نہ آئے کیوں کہ ایک رکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اجلاس میں شریک نہیں تھے اور ملک سے باہر تھے۔ ان کا مؤقف بھی جونیئر جج کو ترقی دینے کے خلاف ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس کے ساتھ ساتھ جسٹس عائشہ ملک ماضی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ایسویسی ایٹ رہی ہیں۔ اس لیے مفادات کے تصادم کے باعث جسٹس فائز عیسیٰ نے خود بھی اس معاملے سے الگ ہو جانا تھا۔ ابھی بھی یہی صورتحال ہے۔
ان کے مطابق چیف جسٹس کا اگرچہ اختیار ہے کہ وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی وطن واپسی پر دوبارہ اس تجویز کو کمیشن کے سامنے پیش کریں البتہ ایسا نہیں لگتا کہ دوبارہ یہ نام پیش کیا جائے گا۔
’چیف جسٹس کے تجویز کردہ نام پر اتفاق نہ ہو سکا‘
صحافی عبدالقیوم صدیقی کہتے ہیں کہ جسٹس مشیر عالم کی ریٹائرمنٹ کے بعد خالی ہونے والی سیٹ آئندہ سال فروری تک ممکنہ طور پر خالی ہی رہے گی۔ کیوں کہ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ چیف جسٹس کی طرف سے تجویز کردہ نام پر اتفاق نہ ہوسکے۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں چیف جسٹس کی طرف سے پیش کیے جانے والے نام پر اتفاق ہو جاتا تھا۔
’سپریم کورٹ کے بعد جوڈیشل کمیشن میں تقسیم‘
عبد القیوم صدیقی کا کہنا تھا کہ اس سے ایک بات واضح ہو رہی ہے کہ سپریم کورٹ میں ججز کے درمیان تقسیم نظر آ رہی۔ البتہ اب یہ تقسیم جوڈیشل کمیشن میں بھی نظر آ رہی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کہا کہ تمام ججز ایک پیج پر نہیں ہیں۔ مختلف امور پر ان کی رائے منقسم ہے۔
وکلا کا احتجاج
جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کے موقع پر سپریم کورٹ کے باہر پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار ایسویسی ایشن اور دیگر بار کونسلز کے نمائندوں نے احتجاج کیا۔
وکلا کی اکثریت کا کہنا تھا کہ ججز کی تقرری کا طریقۂ کار موجود ہے۔ سینئر جج سے قبل جونئیر جج کی تعیناتی سے عدلیہ کے حوالے سے غلط پیغام دیا جا رہا ہے۔
امان اللہ کنرانی کہتے ہیں کہ 1996 کے الجہاد ٹرسٹ کیس میں ججز کی تعیناتی کا طریقۂ کار طے ہو چکا ہے اور اس میں سینئر ترین جج کے پہلے تقرر کا کہا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں ڈکٹیٹرز کے دور میں جونیئر جج کو پہلے تعینات کیا گیا البتہ جمہوری دور میں ہمیشہ اس اصول پر عمل کیا گیا۔ ایسے میں کمیشن کی جانب سے جمہوری روایات کو نظر انداز کرکے جونیئر جج کو تعینات کرنا قانون کے خلاف ہے۔ وکلا اسی پر احتجاج کر رہے ہیں۔
امان اللہ کنرانی نے کہا کہ بطور جج جسٹس عائشہ ملک کی صلاحیتوں سے کسی کو انکار نہیں ہے۔ ان کے دیے گئے فیصلے متاثر کن ہیں البتہ سپریم کورٹ میں تعیناتی کے حوالے سے ہمارا احتجاج اصول کے تحت ہے۔
خاتون جج نہ بن سکیں
سپریم کورٹ میں پہلی مرتبہ ایسا ہو رہا تھا کہ ایک خاتون جسٹس کا نام سپریم کورٹ کی جج کے لیے تجویز کیا گیا تھا البتہ اتفاق رائے نہ ہونے سے عائشہ ملک جج نہ بن سکیں۔
پاکستان کے پڑوسی ملک بھارت میں تین خواتین ججز سپریم کورٹ میں تعینات ہیں اور 2027 میں پہلی مرتبہ خاتون سپریم کورٹ کی چیف جسٹس بن جائیں گی۔
بھارت کی سپریم کورٹ میں 1980 کے بعد سے اب تک 11 خواتین جج رہ چکی ہیں۔
جسٹس عائشہ ملک کون ہیں؟
لاہور ہائی کورٹ کی ویب سائٹ پر موجود جسٹس عائشہ ملک کے تعارف کے مطابق 1967 میں پیدا ہونے والی عائشہ ملک نے اپنی ابتدائی تعلیم پیرس، نیویارک اور پھر کراچی میں حاصل کی۔ کراچی سے بی کام کرنے کے بعد انہوں نے لاہور سے وکالت (ایل ایل بی) کی ڈگری حاصل کی۔
ویب سائٹ پر موجود تعارف کے مطابق اُنہوں نے امریکہ کے ہاورڈ لاء اسکول سے ایل ایل ایم کیا جس کے بعد پاکستان واپس آکر انہوں نے وکالت کا آغاز کیا۔
جسٹس عائشہ اے ملک نے 1997 سے لے کر 2001 تک فخر الدین جی ابراہیم کے ساتھ کام کیا۔ 2001 میں جسٹس عائشہ ملک شادی کے بعد لاہور آ گئیں اور یہاں وکالت شروع کر دی۔
بحیثیت وکیل وہ لاہور ہائی کورٹ، اسپیشل ٹریبیونلز، ڈسٹرکٹ کورٹس، بینکنگ کورٹس اور آربٹریشن سینٹرز میں کیسز لڑتی رہی ہیں۔
وہ 2012 میں لاہور ہائی کورٹ کی جج مقرر ہوئیں۔ لاہور ہائی کورٹ میں سنیارٹی لسٹ میں عائشہ ملک چوتھے نمبر پر ہیں اور بطور جج لاہور ہائی کورٹ ان کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ دو جون 2028 ہے۔