جسٹس فائز عیسیٰ نے کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات پر سوال اُٹھادیے

فائل فوٹو

سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حکومت اور کالعدمِ تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) کے درمیان جاری مذاکراتی عمل پر سوال اُٹھاتے ہوئے کہا کہ جن دہشت گردوں نے سوات میں بچیوں کے اسکول پر حملے کیے ہم ان سے کس کے کہنے پر اور کیا مذاکرات کر رہے ہیں؟

ہفتے کو اسلام آباد میں منعقدہ بین الاقوامی جوڈیشل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ سوات میں بچیوں کے جس اسکول پر حملہ ہوا وہ پانچ سال تک بند رہا۔ کئی تعلیمی اداروں کو اڑا دیا گیا۔ ایک عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق دہشت گردوں نے بچیوں کے ایک ہزار اسکولوں پر حملے کیے اور ہم ان ہی دہشت گردوں سے مذاکرات کر رہے ہیں۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کی اجازت کس نے دی؟ ہم ان دہشت گردوں سے کس کے کہنے پر اور کیا مذاکرات کر رہے ہیں؟

جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ ججوں، بیورو کریٹس اور فوجی افسران کو گاڑیاں دینا بند کریں، سرکاری خزانے میں غریب تو اپنا حصہ ڈال رہا ہے لیکن وہ پیدل چلتا ہے۔ سائیکل پر سفر کرتا ہے، وہ پیسہ سائیکل کے راستوں، پیدل چلنے کے راستوں اور پبلک ٹرانسپورٹ پر خرچ کیا جائے۔

خیال رہے کہ حکومتِ پاکستان نے افغان طالبان کی ثالثی میں رواں برس سے کالعدم تحریکِ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ تاہم یہ مذاکرات مکمل نہیں ہو سکے۔

حکومتِ پاکستان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ آئین کے تحت مذاکرات کیے جا رہے ہیں، تاکہ ملک میں امن و امان کو یقینی بنایا جا سکے۔

تقریب کے دوران سوال جواب کا سیشن بھی ہوا جس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے سوال کیا گیا کہ فوج کے ہیڈ کوارٹرز جی ایچ کیو میں آئینی اور بین الاقوامی معاملات سے متعلق ریسرچ اینڈ لیگل لا ڈائریکٹوریٹ قائم کیا گیا ہے۔ عدلیہ ان سے کوآرڈینیشن کیوں نہیں کر رہی۔

اس پر جسٹس فائز عیسیٰ نے جواب دیا کہ مجھے علم نہیں ہے کہ فوج نے کوئی ادارہ قائم کیا ہے۔ جسٹس عیسی کے بقول اگر وہ آئینی یا بین الاقوامی ایشوز سے متعلق کوآرڈینیشن چاہتے ہیں تو مجھے یا کسی کو بھی دعوت دے سکتے ہیں۔

ویڈیو لنک ٹیکنالوجی کو فروغ دیں گے: چیف جسٹس عمر عطا بندیال

تقریب کے آخر میں خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ مقدمات کی سماعت کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور آئی ٹی سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا جانا چاہیے۔ سپریم کورٹ نے ویڈیو لنک ٹیکنالوجی کی مدد سے ہزاروں مقدمات کا فیصلہ کیا،ویڈیو لنک ٹیکنالوجی سے مقدمہ پر اٹھنے والے اخراجات میں کمی آئے گی۔

انہوں نے کہا کہ پولیس اور پراسیکیوشن کی ٹریننگ کی ضرورت ہے،پولیس اور پراسیکیوشن کی ٹریننگ سے مقدمات کو نمٹانے میں تیزی آئے گی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ مشترکہ کوششوں سے پاکستان میں قانون کی حکمرانی یقینی بنایئ جا سکتی ہے،خوشحال پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ عدلیہ تک سب کی مساوی رسائی ہو۔

SEE ALSO: کیا وفاقی اور خیبرپختونخوا حکومت کے درمیان اختلافات سے عسکریت پسند فائدہ اُٹھا سکتے ہیں؟

انہوں نے کہا کہ خواتین ہماری آبادی کا 50 فی صد ہیں، جنہیں فیصلہ سازی میں شامل کرنا ہوگا۔ خواتین کو تمام سیکٹرز میں بڑا رول دینے کی ضرورت ہے۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے جج جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عدالت معاشی معاملات میں سہولت دے سکتی ہے رکاوٹ نہیں بن سکتی،تنازعات کے حل کے متبادل نظام کے لیے قانون سازی ضروری ہے،قانون میں خلا ہو تو عدالتوں کے لیے کام کرنا ممکن نہیں رہتا۔

جسٹس اعجاز نے کہا کہ سی پیک اور توانائی سمیت متعدد شعبوں میں غیرملکی سرمایہ کار کے مواقع موجود ہیں،تنازعات کے حل کا متبادل نظام سرمایہ کاروں کے لیے سہولت کا باعث ہوگا۔ متبادل نظام سے کاروباری تنازعات عدالت کی نسبت جلد حل ہوسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے علاوہ دیگر صوبوں میں ثالثی کے ذریعے تنازعات حل کرنے کے قانون بن چکے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں معمولی نوعیت کے فوج داری مقدمات بھی ثالثی نظام کے ذریعے حل ہو رہے ہیں۔عوام کو عدالتوں میں آنے کے بجائے ثالثی کے نظام سے رجوع کرنے کی آگاہی دی جانی چاہیے۔