خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران بچوں سے زیادتی کے 276 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جن میں سے 60 واقعات صوبے کے بڑے شہروں پشاور، نوشہرہ اور مردان میں ہوئے۔
صوبائی حکام اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے وابستہ رضاکاروں کا کہنا ہے کہ دیہی اضلاع میں ہونے والے بیشتر واقعات کو پولیس میں رپورٹ نہیں کیا جاتا۔ جب کہ ان علاقوں میں ذرائع ابلاغ کی مؤثر رسائی نہ ہونے سے بھی یہ واقعات سامنے نہیں آتے۔ زیادہ تر متاثرہ بچوں کے والدین ان واقعات کو پوشیدہ رکھتے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے اطلاعات تک رسائی کے ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس بچوں سے جنسی زیادتی کے 185 واقعات ہوئے جن میں 135 کم عمر لڑکے اور 50 بچیاں تھیں۔
بچوں کے حقوق کے تحفظ کے ادارے 'ساحل' کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق رواں سال 30 جون تک بچوں سے زیادتی کے 91 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ اس دوران پانچ بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا گیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے 2019 میں ہونے والے 185 واقعات میں مجموعی طور پر 248 ملزمان کو گرفتار کیا۔
سماجی کارکنوں کے مطابق زیادتی اور قتل کے علاوہ صوبے کے مختلف علاقوں میں کم سن بچوں کے اغوا یا پر اسرار گمشدگی کے واقعات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم سماجی کارکن عمران ٹھکر کا کہنا ہے کہ اس قسم کی وارداتوں کی وجہ اکثر اوقات آپس کے تنازعات یا اغوا برائے تاوان ہوتی ہے۔ انتہا پسند تنظیموں کے کارکن بھی ان وارداتوں میں ملوث ہوتے ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ زیادتی کے بعد ملزموں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ان بچوں کو غائب یا قتل کر دیا جائے تاکہ ان کے جرم پر پردہ پڑا رہے۔
سماجی کارکن یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی عدم توجہ اور کمزور مقدمات کے نتیجے میں ملزمان عموماً عدالتوں سے با آسانی رہا ہو جاتے ہیں جس سے بچوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں کمی کی بجائے اضافہ ہو رہا ہے۔
حزب اختلاف میں شامل پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی رکن صوبائی اسمبلی نگہت اورکزئی نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ تمام پولیس تھانوں کو اس نوعیت کے واقعات کے مقدمات درج کرنے کا پابند بنایا جائے اور ان مقدمات کو جامع تفتیش اور دفعات کے ساتھ مضبوط بنایا جائے تاکہ ملزمان کو قرار واقعی سزا کا ملنا یقینی ہو جائے۔
خیبر پختونخوا کے انسانی حقوق کے تحفظ کے ڈپٹی ڈائریکٹر اعجاز خان کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں صوبائی اسمبلی کے اسپیکر کی سربراہی میں ایک خصوصی کمیٹی نے سفارشات مرتب کی تھیں۔ جب کہ صوبے کے 12 اضلاع میں بچوں کے حقوق کے تحفظ سے متعلق خصوصی یونٹ بھی کام کر رہے ہیں۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک ان خصوصی یونٹس کے عہدوں پر بھرتیاں نہیں کی گئیں ہیں اور ضلعی سطح پر یہ اضافی ذمہ داری محکمہ سماجی بہبود کے افسروں کو سونپی گئی ہے۔
سماجی کارکن عمران ٹھکر کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا سمیت ملک بھر میں بچوں پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔