سوشل میڈیا پلیٹ فارم، فیس بک کی دستاویزات کے مطابق کمپنی بھارت میں مبینہ طور پر نفرت پر مبنی مواد، جھوٹی خبروں، بالخصوص مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی، روکنے میں ناکام رہی ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے فیس بک کی افشا ہونے والی ایسی دستاویز حاصل کی ہیں، جن سے پتہ چلا ہے کہ نفرت پھیلانے والی تقاریر اور مسلمانوں کے خلاف مواد کو اپنے پلیٹ فارم سے ختم کرنے کے سلسلے میں فیس بک کی کوششیں تذبذب کا شکار ہیں۔ ان کے پاس بھارت کی مختلف زبانیں جاننے والے ایسے مقامی سٹاف کی کمی ہے، جو اغلاط اور گمراہ کن اطلاعات کی پو سٹنگ کو روک سکے ۔ اور بعض اوقات ایسی گمراہ کن اطلاعات کی وجہ سے پر تشدد واقعات بھی ہوئے ہیں۔
ان فائلوں سے ظاپر ہوتا پے کہ فیس بک کمپنی کئی برسوں سے اس معاملے میں مشکلات کا شکار ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک بھارت میں فیس بک اپنے پلیٹ فارم سے توہین آمیز مواد کو ختم کرنے کی جدو جہد کر رہی ہے ، مگر اپنی اس پھیلتی ہوئی مارکیٹ میں اس کو کنٹرول نہیں کر سکی ہے۔
ادارے کی لیک ہونے والی اندرونی دستاویزات سے پتہ چلا ہے کہ 2019 میں عام انتخابات سے لے کر مارچ 2021 تک کی تحقیق میں ''یہ بات بار بار سامنے آئی'' کہ فیس بک کی سب سے بڑی مارکیٹ اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والے بھارت میں مبینہ نفرت انگیز مواد کو قابو کرنے میں ادارے کو مستقل ناکامی کا سامنا رہا۔
یاد رہے کہ بھارت میں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی کئی پوسٹس، مذہبی انتہا پسندی اور اقلیتوں کے خلاف تشدد اور فساد کا باعث بن چکی ہیں۔
ان دستاویزات میں یہ واضح ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا سوشل میڈیا پلیٹ فارم اس مسئلے سے کئی سالوں سے آگاہ رہا ہے۔ ماہرین اور انسانی حقوق کے کارکن فیس بک سے اس بات کی وضاحت مانگ رہے ہیں کہ وہ اپنی پالیسیز کے برخلاف ایسے مواد کو روکنے میں ناکام کیوں رہا۔
ڈیجیٹل ماہرین کا کہنا ہے کہ فیس بک خاص طور پر ایسے مبینہ نفرت پر مبنی مواد کی روک تھام میں ناکام نظر آیا، جس میں، ان کے بقول، وزیراعظم نریندر مودی کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی ملوث ہو۔
نریندر مودی کے بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ انہوں نے دوران الیکشن فیس بک پلیٹ فارم کا اپنی پارٹی کے حق میں بھرپور فائدہ اٹھایا۔
گزشتہ سال بین الاقوامی شہرت یافتہ اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے بھی اس شبے کا اظہار کیا تھا کہ، رپورٹ کے مطابق، بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے کسی تنقید یا ردعمل سے سے بچنے کے لئے فیس بک نے نفرت انگیز مواد کے حوالے سے اپنی پالیسیز لاگو کرنے میں جانبداری برتی۔
سال 2015ء میں نریندر مودی کی امریکہ میں فیس بک ہیڈکوارٹرز آمد پر کھینچی گئی ایک تصویر فیس بک کے بانی مارک زکربرگ اور نریندر مودی کے درمیان دوستانہ اور گرم جوش تعلقات کی عکاسی کرتی ہے۔
فیس بک کی لیکڈ دستاویزات میں کئی ایسی رپورٹس شامل ہیں جو نہ صرف انڈیا میں مبینہ نفرت پر مبنی مواد اور جھوٹی خبروں کے بغیر کسی روک تھام نشر ہونے کی جانب اشارہ کرتی ہیں، بلکہ کچھ رپورٹس اس بات کی نشاندہی بھی کرتی ہیں کہ ایسی خبروں کی روک تھام کے بجائے پلیٹ فارم کا اندرونی الگورتھم فیچر خود، مبینہ طور پر، اشتعال انگیز مواد اور جھوٹی خبروں کے وائرل ہونے کی وجہ بنا۔
ان دستاویزات کے مطابق، بھارت فیس بک کے لئے "سب سے زیادہ حساس" ممالک کی فہرست میں شامل رہا ہے۔ کمپنی نے ہندی اور بنگالی زبان میں نفرت پر مبنی مواد روکنے کی ضرورت کے لئے آٹومیشن کی ضرورت کی بھی نشاندہی کی مگر اس کے باوجود ایسے مواد کو روکنے کے لئے خاطر خواہ اقدامات کرنے میں ناکام رہا جس کی وجہ سے حقیقی زندگی میں تشدد کے کئی واقعات پیش آئے۔
خبر رساں ادارے اے پی کی جانب سے استفسار پر فیس بک نے ایک تحریری بیان میں کہا ہے کہ " فیس بک نے ہندی اور بنگالی سمیت مختلف زبانوں میں اشتعال انگیز اور نفرت پر مبنی مواد کی روک تھام کے لئے ٹیکنالوجی بہتر بنانے پر کام کیا ہے، جس کی وجہ سے سال 2021ء میں ایسا پچاس فیصد مواد ہی صارفین تک پہنچ پا رہا ہے".
فیس بک کمپنی کے ترجمان کے مطابق، دنیا بھر میں مسلمانوں سمیت کمزور اقلیتوں کے خلاف نفرت بڑھ رہی ہے اور فیس بک ایسے تمام مواد کی روک تھام کے لئے پرعزم ہے، اور اس سے متعلق اپنی پالیسیز اور ٹیکنالوجی بہتر بنا رہا ہے۔