|
بین الاقوامی خلائی اسٹیشن، خلا میں انسان کا پہلا گھر ہے۔ جہاں انسان زمین سے باہر رہنے اور خود کو نئے ماحول میں ڈھالنا سیکھ رہا ہے جو خلا میں تیرتی ہوئی بستیاں بسانے اور دور دراز کے سیاروں میں آباد ہونے میں اسے مدد دے گا۔
زمین سے تقریباً 250 میل کی دوری پر گردش کرنے والے خلائی اسٹیشن میں زندگی کی شروعات 2 نومبر 2000 میں ہوئی تھی۔ اب تک وہاں دنیا کے 20 ملکوں کے 260 سے زیادہ افراد جا چکے ہیں جن میں سے کچھ وہاں ایک برس سے زیادہ قیام بھی کر چکے ہیں۔
اب خلا کے دروازے عام لوگوں کے لیے کھل رہے ہیں۔ اور اسپس ایکس جیسی پرائیویٹ فلائٹس سے لوگوں کی خلا میں آمد و رفت شروع ہو گئی ہے۔ ممکن ہے کہ کبھی آپ کو بھی خلا اور بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر جانے کا موقع ملے۔ آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ خلا میں تیرتے ہوئے پہلے انسانی گھر میں آپ کے روز و شب کیسے ہوں گے۔
خلائی اسٹیشن پر آپ کو سب سے پہلا تجربہ یہ ہو گا کہ اس کے دن اور رات بہت چھوٹے ہیں اور ہر 45 منٹ کے بعد آپ وہاں سورج کو نکلتے اور غروب ہوتے ہوئے دیکھیں گے۔ کیونکہ خلائی اسٹیشن زمین کے گرد گھوم رہا ہے اور 90 منٹ میں وہ اپنا چکر مکمل کر لیتا ہے۔تاہم خلائی اسٹیشن میں روزمرہ کے معمولات زمین کے 24 گھنٹے والے کلاک کے مطابق چلتے ہیں۔
خلائی اسٹیشن کے تین بنیادی حصے ہیں۔ پہلا ڈاکنگ ایریا ہےجس سے خلائی جہاز آ کر جڑتے ہیں اور اس راستے سامان لایا یا بھیجا جاتا ہے اور خلابازوں کی آمد و رفت ہوتی ہے۔ دوسرا حصہ رہائشی ہے جس میں لگ بھگ پانچ لوگوں کی گنجائش ہے، جس میں ٹوائلٹ اور کھانے کی میز اور اون بھی موجود ہے۔ تیسرا حصہ تجربہ گاہوں پر مشتمل ہے۔
خلائی اسٹیشن کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ آپ وہاں بیمار نہیں ہوں گے کیونکہ خلا میں جراثیم یا وائرس موجود نہیں ہے۔ وہاں جراثیم صرف خلابازوں کے ساتھ ہی جا سکتے ہیں جس کی بہت احتیاط کی جاتی ہے۔
جراثیم نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ بیمار نہیں ہوں گے۔ وہاں آپ کی صحت کو متاثر کرنے والی کئی اور چیزیں موجود ہیں۔ پہلی چیز تو یہ ہے کہ وہاں کشش ثقل نہیں ہے۔ چنانچہ آپ پاؤں پر کھڑے ہونے کی بجائے غبارے کی طرح تیرنا شروع کر دیتے ہیں اور آپ کو کھڑا ہونے کے لیے کسی چیز کو پکڑنے اور سہارا لینے کی ضرورت پڑتی ہے۔
خلائی اسٹیشن میں جاتے ہی سربھاری ہونا اور چہرے پر سوجن آنا شروع ہو جاتی ہے۔ ممکن ہے کی جی متلانے اور چکر بھی آنے لگیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کشش ثقل کا نہ ہونے سے پاؤں کی جانب خون کی گردش سست پڑ جاتی ہے اور اس کا رخ چہرے کی طرف ہو جاتا ہے۔ اس پر قابو پانے کا طریقہ ورزش ہے۔ خلائی اسٹیشن میں خلاباز روزانہ دو گھنٹے تک ورزش کرتے ہیں۔ وہاں ٹریڈ مل اور ایکسرسائز سائیکل موجود ہے۔
ورزش اس لیے بھی ضروری ہے کہ اگر آپ اپنی ٹانگوں کو حرکت نہیں دیں گے تو اس کے اعصاب کمزور ہو جائیں گے اور چلنا پھرنا مشکل ہوتا جائے گا۔
خلائی اسٹیشن میں مشکل آپ کو سونے میں بھی ہو گی کیونکہ وہاں ہر 45 منٹ کے بعد دن اور 45 منٹ کے بعد رات ہو جاتی ہے۔ دوسرا خلائی اسٹیشن میں نصب آلات اور مشینوں کا شور بہت ہے اور تیسرا یہ کہ بے وزنی کی وجہ سے آپ بستر پر ٹک نہیں سکتے اور لڑھک جائیں گے۔ لیکن آپ آنکھوں پر موٹا غلاف چڑھا کر، کانوں کو بند کر کے اور خود کو بستر کے ساتھ باندھ کر نیند لے سکتے ہیں۔ شروع میں تو مشکل ہو گی لیکن رفتہ رفتہ آپ اس کے عادی ہو جائیں گے۔
ہاں مگر کھانے کے معاملے میں آپ کو زیادہ مشکل نہیں ہو گی کیونکہ جو کچھ آپ کو کھانے کے لیے زمین پر ملتا ہے، تقریباً وہ سبھی چیزیں خلائی اسٹیشن پر بھی دستیاب ہیں۔ آپ کا دل کسی خاص چیز کو کھانے کو چاہے تو آپ منگوا سکتے ہیں۔ زمینی مرکز سے تقریباً ہر دو مہینے کے بعد خلائی اسٹیشن کے لیے سپلائی جاتی ہے۔ اور کبھی کبھار تو اس میں آئس کریم بھی شامل ہوتی ہے جسے خلاباز بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ خلائی اسٹیشن میں آئس کریم سٹاک نہیں کی جا سکتی کیونکہ فریزر بہت چھوٹا ہے اور اسے زیادہ تر سائنسی تجربات کے لیے ہی استعمال کیا جاتا ہے۔
خلائی اسٹیشن میں آپ کے لیے کھانے کی کافی ورائٹی ہے۔ کھانے کی شکل مختلف ہو سکتی ہے لیکن تقریباً سبھی کچھ مل جاتا ہے۔ ناشتے میں آپ کے لیے دلیہ، دودھ، دہی، مختلف قسم کی آملیٹ، سوپ، پھل اور کافی دستیاب ہے۔ کافی کی بات ہم ذرا بعد میں کریں گے۔
دوپہر اور رات کے کھانے کے لیے بھی بہت کچھ موجود ہے۔ چکن، بیف، مچھلی، جھینگے، چاول، سبزیاں اور پھل اور کئی طرح کے مشروبات مل سکتے ہیں۔ تاہم اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ زمین سے سپلائی کب آئی تھی۔مشروبات زیادہ تر ٹوتھ پیسٹ جیسی ٹیوب میں ہوتے ہیں جنہیں دبا کر منہ میں ڈالا جاتا ہے۔ کیونکہ بے وزنی کی وجہ سے پانی اور مشروبات گولے سے بن کر تیرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ انہیں پینے کی بجائے چوسنا پڑتا ہے۔ لیکن اب ایک نئی ٹیکنالوجی متعارف ہوئی ہے جس سے پانی وغیرہ کو پینا ممکن ہو گیا ہے۔
خلائی اسٹیشن پر آپ کو مشہور برینڈ کے کیچپ اور چٹنیاں بھی مل جاتی ہیں اور بے وزنی کی کیفیت اور منہ کے خراب ذائقے کے باعث انہیں کھانا اچھا لگتا ہے۔
کھانے کے پیکٹ یا ڈبے کوعام طور پر اون میں گرم کر کے کھایا جاتا ہے۔ یہ اون گرم ہوا کے اصول پر کام کرتا ہے۔ آپ چاہیں تو اپنا کھانا خود تیار کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے خوارک کے پسے ہوئے پیکٹ موجود ہیں۔ آپ اس میں پانی ڈال کر گرم کر لیں۔ لیجیئے بھاپ اڑاتا تازہ کھانا تیار ہے۔
اس سے پہلے ہم نے کافی کی بات کی تھی۔آئیے آپ کو بتاتے ہیں کہ خلائی اسٹیشن میں کافی بنانے یا پینے کے لیے کونسا پانی استعمال ہوتا ہے۔ پانی خلائی اسٹیشن کے لیے سب سے اہم مسئلہ ہے۔ کیونکہ پانی زمین سے آتا ہے اور وہ بہت مہنگا پڑتا ہے۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ زمین سے خلائی اسٹشن میں ایک گیلن پانی پہنچانے کے اخراجات 83000 ڈالر سے زیادہ ہیں۔خلائی اسٹیشن بھیجی جانے والی سپلائی میں چونکہ اور بھی بہت سی چیزیں شامل ہوتی ہیں، اس لیے پانی کی ایک محدود مقدار ہی بھیجی جا سکتی ہے۔
خلائی اسٹیشن کو بھیجی جانے والی سپلائی کی بات چل رہی ہے تو ذرا اس کے اخراجات کی بھی بات ہو جائے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ناسا نے سال میں پانچ سپلائز خلائی اسٹیشن تک پہنچانے کے لیے ایک ارب ڈالر سے زیادہ کا معاہدہ کیا ہے۔ جب کہ وزن کے حساب سے سامان کی قیمت اس کے علاوہ ہے۔
پانی کی بچت کے لیے خلائی اسٹیشن میں فلٹریشن اور ری سائیکلنگ کا خصوصی نظام نصب کیا گیا ہے۔ یہ نظام استعمال شدہ پانی سمیت پیشاب کو بھی صاف کر کے دوبارہ پینے کے قابل بنا دیتا ہے۔ چنانچہ کافی بنانے اور پینے میں یہی پانی استعمال کیا جاتا ہے۔ کافی پیتے ہوئے خلاباز عموماً مذاق میں یہ کہتے ہیں کہ یہ وہی کافی ہے جو ہم نے پرسوں پی کر خارج کر دی تھی۔
خلائی اسٹیشن میں کئی ملکوں کے خلاباز جاتا ہیں جن میں روسی بھی شامل ہیں۔ وہ پیشاب کو صاف کرکے بنایا جانے والا پانی استعمال نہیں کرتے، اس لیے انہوں نے اپنا الگ فلٹریشن پلانٹ نصب کیا ہے۔
خلائی اسٹیشن کا فلڑیشن پلانٹ اتنا طاقت ور ہے کہ خلا بازوں کے پسینے اور سانس میں موجود نمی میں سے بھی پانی چوس کر اسے دوبارہ استعمال کے قابل بنا دیتا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ خلائی اسٹیشن میں استعمال کیا جانے والا تقریباً 98 فی صد پانی دوبارہ حاصل کر لیا جاتا ہے۔
خلائی اسٹیشن میں پانی ایک اور لیکن سب سے اہم مقصد کے لیے بھی استعمال جاتا ہے اور وہ ہے آکسیجن تیار کرنا۔ یہ تو آپ کو معلوم ہے کہ آکسیجن ہماری زندگی کی بنیادی ضرورت ہے اور اس کے بغیر چند منٹ بھی زندہ نہیں رہا جا سکتا۔ خلائی اسٹیشن کا ایک پلانٹ پانی کے ایٹم کو توڑ کر اسے آکسیجن اور ہائیڈروجن گیس میں تبدیل کر دیتا ہے، جس کے بعد ہائیڈروجن کو خلا میں خارج کر دیا جاتا ہے ۔
آکسیجن کا ذکر آیا ہے تو یہ بات بھی آپ کے لیے دلچسپ ہو گی کہ خلائی جہاز میں ہوا کا دباؤ اتنا ہی رکھا جاتا ہے جتنا کہ زمین پر ہے اور ہوا میں آکسیجن کا تناسب بھی زمین جیسا ہی رکھا جاتا ہے۔ چنانچہ آپ کو خلائی جہاز کے اندر سانس لینے کے لیے ماسک لگانے اور خلائی لباس پہننے کی ضرورت نہیں رہتی اور آپ نیکر اور بنیان میں بھی آرام سے وقت گزار سکتے ہیں۔
خلائی اسٹیشن میں آپ چاہیں تو نہا بھی سکتے ہیں، لیکن وہاں کا غسل زمینی غسل سے بہت مختلف ہے۔ نہانے کے لیے آپ دو تولیے استعمال کرتے ہیں، ایک گیلا اور دوسرا خشک، گیلے تولیے سے آپ جسم کو صاف کرتے ہیں اور خشک تولیے سے اسے پونچھ لیتے ہیں۔ سر دھونے کے لیے ایک خاص شیمپو ہے جو پانی کے بغیر ہی بالوں کو صاف کر دیتا ہے۔ ٹوتھ پیسٹ چیونگم جیسا ہے جسے آپ چبا کر نگل لیتے ہیں اور دانت صاف ہو جاتے ہیں۔ ٹوائلٹ میں پیشاب اور فضلہ الگ الگ حصوں میں جاتا ہے۔ پیشاب کو ری سائیکل کر لیا جاتا ہے جب کہ فضلے کو ایک کنٹیز میں بند کر کے زمین پر جانے سامان کے ساتھ بھیج دیا جاتا ہے۔ جب راکٹ زمین کے فضائی کرے میں داخل ہوتا ہے تو اس کنٹینر کو کھول دیا جاتا ہے ۔ فضلہ فضا میں بکھر کر ہوا کی رگڑ سے جل کر راکھ ہو جاتا ہے۔
خلائی اسٹیشن کو زیادہ سے زیادہ خودکفیل بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ زمین کی سپلائز پر اس کا انحصار کم سے کم کیا جا سکے۔ سائنس دان خلا میں سبزیاں اگانے اور قدرتی عمل کے ذریعے آکسیجن بنانے کے بھی تجربات کر رہے ہیں۔
خلائی اسٹیشن اپنی ضرورت کی بجلی خود پیدا کر رہا ہے اور اس کے شمسی پینل 90 کلوواٹ تک بجلی فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اور ہاں ہم یہ تو آپ کو بتانا بھول ہی گئے کہ خلائی اسٹیشن میں زمین سے رابطے کو ایک مربوط نظام موجود ہے اور آپ وہاں سے نمبر گھما کر دنیا بھر میں کسی سے بھی بات کر سکتے ہیں۔
(اس آرٹیکل کے لیے ناسا اور خلائی سائنس سے متعلق دیگر جرائد اور مطبوعات سے مدد لی گئی ہے)