مشین کے ذریعے عطیہ شدہ جگر کو انسانی جسم کے درجہ حرارت پر 24 گھنٹے تک اس کے تمام متحرک افعال کے ساتھ زندہ اور محفوظ رکھا جا سکتا ہے
اس ہفتے طب کی دنیا میں ایک ایسی مشین کو متعارف کرایا گیا ہے جس سے انسانی اعضا کی پیوند کاری کے شعبے میں ایک انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔
دنیا میں پہلی بار ایک مشین کی مدد سے عطیہ شدہ جگر کو نہ صرف محفوظ کیا جا سکتا ہے، بلکہ اسے انسانی جسم کے بغیر ذندہ بھی رکھا جا سکتا ہے ۔
آکسفورڈ یونیورسٹی اور کنگ کالج لندن کے محقیقین نے اس مشین کے بارے میں تفصیلات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ، مشین کے ذریعےعطیہ شدہ جگر کو انسان کے جسم کے درجہ حرارت پر 24گھنٹے تک اس کے تمام متحرک افعال کے ساتھ ذندہ محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔
ماہرین کی رائے میں یہ ایک مفید طریقہ ثابت ہوگا خاص طور پر ایک سرجن کو آپریشن سے قبل تیاری کے لیےاچھا خاصا وقت مل جائے گا۔ اس دوران وہ جگر کی کارکردگی کا جائزہ بھی لے سکتا ہے، جبکہ خودکار مشین کی مدد سے جگر کے خلیات کی پوشیدہ ٹوٹ پھوٹ کی مرمت بھی کی جاسکتی ہے۔
گذشتہ ماہ یورپ میں انسانی اعضا کی پیوندکاری کے سب سے بڑے ہسپتال کنگ کالج لندن میں پہلی بار اس مشین کو جگر کی پیوند کاری کے کامیاب آپریشن میں استعمال کیا گیا۔
اس آپریشن میں مشین کے ذریعے زندہ رکھے جانے والے عطیہ شدہ جگر کو دو ضرورت مند مریضوں میں منتقل کیا گیا تھا۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ آپریشن ہر لحاظ سے کامیاب ثابت ہوا ہے، جبکہ دونوں مریض تیزی سے صحت یاب ہو رہے ہیں۔
جگر کو محفوظ رکھنے کے موجودہ طریقہ کارمیں عطیہ شدہ جگر کوکم از کم4 سینٹی گریڈ درجہ حرارت پر برف کے ساتھ ٹھنڈا رکھ کر محفوظ کیا جاتا ہے۔ مگر، اس طریقے سے جگر کو صرف 20 گھنٹے تک ہی محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ زیادہ تر ڈاکٹر 14 گھنٹے گزرنے کے بعد عطیہ شدہ جگر کو آپریشن کے لیے استعمال کر لیتے ہیں کیونکہ زیادہ وقت تک منجمد رہنے کی وجہ سے جگر کے فعل کو نقصان پہنچتا ہے۔
یہ مشین برطانوی سائنسدانوں کی 15 سالہ محنت کا نتیجہ ہے، جسکا ہجم ایک سپر مارکیٹ کی شاپنگ ٹرالی کے برابر ہے۔ اس تجربے میں سائنسدانوں نے دکھایا کہ جیسے ہی عطیہ شدہ جگر کو مشین میں موجود کنٹینر میں رکھا گیا اور اسٹارٹ کا بٹن دبایا گیا مشین کی نلکیوں کے ذریعے مناسب مقدار میں آکسیجن، خون اور مقویات جگر تک پہنچنا شروع ہو گئے اور جگر نےاسی طرح کام کرنا شروع کردیا جیسا کہ وہ انسانی جسم میں کرتا ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی ڈپارٹمنٹ آف انجئنیرنگ اینڈ سائنس کے پروفیسر کونسٹنٹن کوزی آس کے مطابق ، 'ابتدائی آپریشن کی کامیابی سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مشین کے ذریعے جگر کی پیوند کاری کا عمل کامیاب رہا ہے۔'
ان کا کہنا تھا کہ، 'یہ ایک حیرت انگیز تجربہ تھا ، جب ایک سیاہی مائل گردے کو ہماری مشین کے ساتھ منسلک کیا گیا تو وہ نہ صرف اپنی اصل رنگ پر واپس آگیا بلکہ اس نے ٹھیک اسی طرح سے کام کرنا شروع کر دیا جیسا کہ انسانی جسم میں کرتا ہے ۔اور اس سے بھی زیادہ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اسے ایک کامیاب آپریشن کے بعد جن مریضوں کو منتقل کیا گیا ہے وہ آج چلتے پھرتے نظر آرہے ہیں ۔'
باسٹھ سالہ این کرسٹی وہ پہلے انسان ہیں جنھیں اس آزمائشی آپریشن کے لیے چنا گیا ۔ انھیں گذشتہ بیس برسوں سے ہپا ٹائٹس کا مرض تھا جس کی وجہ سے ان کا جگر ناکارہ ہو چکا تھا۔ ڈاکٹروں نے انھیں بتا دیا تھا کہ ان کا علاج جگر کی پیوندکاری ہے ورنہ وہ بامشکل بارہ سے اٹھارہ ماہ تک ذندہ رہ سکیں گے۔
کرسٹی نے بتایا کہ انھیں جگر کی پیوند کاری کے متمنی مریضوں کی فہرست میں شامل کر دیا گیا اور یہ بھی بتادیا گیا تھا کہ شاید اتنے عرصے میں انھیں عطیہ شدہ جگر نہ مل پائے۔ وہ ہر روز ہسپتال سے آنے والی فون کال کا انتطار کرتے۔ اسی دوران ایک روز انھیں ہسپتال سے فون کال موصول ہوئی اور انھوں نے اس آزمائشی آپریشن کے لیے حامی بھر لی۔
کرسٹی کے مطابق ،'میری طبیعت میں تیزی سے بہتری آرہی ہے اور میں خود کو آج سے 15 برس پہلے جتنا جوان محسوس کر رہا ہوں'۔
اس آپریشن میں شامل سرجن وائل جے سیم کا کہنا ہے کہ مشین کے ذریعے عطیہ شدہ جگر کو محفوظ بنانے کا عمل جگر کی پیوند کاری میں ایک حوصلہ مند تبدیلی ہے۔'
ڈااکٹروں نے بتایا کہ آزمائشی آپریشن میں استعمال کئے جانے والا جگر صرف دس گھنٹے بعد ہی جگر کی پیوند کاری کے لیے استعمال کر لیا گیا تھا۔ لیکن، ماہرین سمجھتے ہیں کہ مشین کے ذریعے جگر کو 24 گھنٹے یا زیادہ سے زیادہ 72 گھنٹے تک انسانی جسم کے بغیر زندہ رکھا جا سکے گا۔
امریکہ اور یورپ میں ہر سال اعضا کی پیوند کاری کے تقریبا 13 ہزار آپریشن کئے جاتے ہیں، جبکہ اعضا کے عطیے کا انتظار کرنے والوں کی فہرست میں ہرسال 30 ہزار افراد شامل ہو جاتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک تہائی مریض عطیے کےانتظارمیں دنیا سے گزر جاتے ہیں، جبکہ 2 ہزارعطیہ شدہ جگر منجمد ہونے کے بعد آکسیجن کی کمی کے باعث ٹھیک طریقے سے کام کرنے کے قابل نہیں رہتے ہیں۔
محققین کے مطابق اس نئے طریقے سےانسانی اعضا کی پیوند کاری کے شعبے میں ایک انقلاب لایا جاسکتا ہے ۔ مشین کے ذریعے ایسے متاثرہ جگر کے افعال کو درست کیا جاسکے گا جومنجمد ہونے کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کر ناکارہ ہو جاتے ہیں۔ اس طرح آپریشن کے لیے دستیاب عطیہ شدہ جگر کی تعداد دوگنی ہو سکتی ہے، جبکہ یہی مشین کچھ تبدیلیوں کے ساتھ انسانی اعضا کی پیوند کاری کے دیگر شعبوں مثلا گردے اور پھپھڑے کی پیوند کاری کے آپریشن میں بھی استعمال کی جاسکے گی۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ مشین جلد ہی ترقی یافتہ ملکوں میں جگر کی پیوند کاری کے لیے استعمال کی جا سکے گی۔ توقع ہے کہ یورپ کی مارکیٹ میں یہ مشین آئندہ برس دستیاب ہو گی۔
جگر انسانی جسم کے لیے ایک کیمکل فیکٹری کا کام انجام دیتا ہے ۔جہاں بہت سے ایسڈ اور کیمیکل تیار ہوتے ہیں۔ نظام ہاضمہ کے فعل کو درست رکھنے کے لیے جگر بائل ایسڈ بناتا ہے، خوراک میں سے فاسد مواد علحیدہ کر کے دل کو صاف خون مہیا کرتا ہے اسی طرح خوراک سے حاصل ہونے والی ہر قسم کی توانائی کو جمع کرنا اور خون کو انفیکشن سے بچانا،ذخم کا خود سے بھرنا کے علاوہ ہارمونز اور میٹا بولزم کے نظام کوبھی مدد فراہم کرتا ہے یہ انسانی جسم کا ایک ایسا لازمی جزو ہے جس میں خرابی پیدا ہونے پر جسم کے دوسرے اعضاء بھی متاثر ہوتے ہیں۔
الکوحل، ہپاٹاٹئس سی یا پھر جگر کےکینسرکے مرض سے جگر کو شدید نقصان پہنچتا ہے جس سے یہ آہستہ آہستہ ناکارہ ہو جاتا ہے۔ ایسے مریض جن کا جگر ناکارہ ہو جاتا ہے ان کا علاج صرف جگر کی پیوند کاری سے کیا جا سکتا ہے۔
دنیا میں پہلی بار ایک مشین کی مدد سے عطیہ شدہ جگر کو نہ صرف محفوظ کیا جا سکتا ہے، بلکہ اسے انسانی جسم کے بغیر ذندہ بھی رکھا جا سکتا ہے ۔
آکسفورڈ یونیورسٹی اور کنگ کالج لندن کے محقیقین نے اس مشین کے بارے میں تفصیلات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ، مشین کے ذریعےعطیہ شدہ جگر کو انسان کے جسم کے درجہ حرارت پر 24گھنٹے تک اس کے تمام متحرک افعال کے ساتھ ذندہ محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔
ماہرین کی رائے میں یہ ایک مفید طریقہ ثابت ہوگا خاص طور پر ایک سرجن کو آپریشن سے قبل تیاری کے لیےاچھا خاصا وقت مل جائے گا۔ اس دوران وہ جگر کی کارکردگی کا جائزہ بھی لے سکتا ہے، جبکہ خودکار مشین کی مدد سے جگر کے خلیات کی پوشیدہ ٹوٹ پھوٹ کی مرمت بھی کی جاسکتی ہے۔
گذشتہ ماہ یورپ میں انسانی اعضا کی پیوندکاری کے سب سے بڑے ہسپتال کنگ کالج لندن میں پہلی بار اس مشین کو جگر کی پیوند کاری کے کامیاب آپریشن میں استعمال کیا گیا۔
اس آپریشن میں مشین کے ذریعے زندہ رکھے جانے والے عطیہ شدہ جگر کو دو ضرورت مند مریضوں میں منتقل کیا گیا تھا۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ آپریشن ہر لحاظ سے کامیاب ثابت ہوا ہے، جبکہ دونوں مریض تیزی سے صحت یاب ہو رہے ہیں۔
جگر کو محفوظ رکھنے کے موجودہ طریقہ کارمیں عطیہ شدہ جگر کوکم از کم4 سینٹی گریڈ درجہ حرارت پر برف کے ساتھ ٹھنڈا رکھ کر محفوظ کیا جاتا ہے۔ مگر، اس طریقے سے جگر کو صرف 20 گھنٹے تک ہی محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ زیادہ تر ڈاکٹر 14 گھنٹے گزرنے کے بعد عطیہ شدہ جگر کو آپریشن کے لیے استعمال کر لیتے ہیں کیونکہ زیادہ وقت تک منجمد رہنے کی وجہ سے جگر کے فعل کو نقصان پہنچتا ہے۔
یہ مشین برطانوی سائنسدانوں کی 15 سالہ محنت کا نتیجہ ہے، جسکا ہجم ایک سپر مارکیٹ کی شاپنگ ٹرالی کے برابر ہے۔ اس تجربے میں سائنسدانوں نے دکھایا کہ جیسے ہی عطیہ شدہ جگر کو مشین میں موجود کنٹینر میں رکھا گیا اور اسٹارٹ کا بٹن دبایا گیا مشین کی نلکیوں کے ذریعے مناسب مقدار میں آکسیجن، خون اور مقویات جگر تک پہنچنا شروع ہو گئے اور جگر نےاسی طرح کام کرنا شروع کردیا جیسا کہ وہ انسانی جسم میں کرتا ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی ڈپارٹمنٹ آف انجئنیرنگ اینڈ سائنس کے پروفیسر کونسٹنٹن کوزی آس کے مطابق ، 'ابتدائی آپریشن کی کامیابی سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مشین کے ذریعے جگر کی پیوند کاری کا عمل کامیاب رہا ہے۔'
ان کا کہنا تھا کہ، 'یہ ایک حیرت انگیز تجربہ تھا ، جب ایک سیاہی مائل گردے کو ہماری مشین کے ساتھ منسلک کیا گیا تو وہ نہ صرف اپنی اصل رنگ پر واپس آگیا بلکہ اس نے ٹھیک اسی طرح سے کام کرنا شروع کر دیا جیسا کہ انسانی جسم میں کرتا ہے ۔اور اس سے بھی زیادہ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اسے ایک کامیاب آپریشن کے بعد جن مریضوں کو منتقل کیا گیا ہے وہ آج چلتے پھرتے نظر آرہے ہیں ۔'
باسٹھ سالہ این کرسٹی وہ پہلے انسان ہیں جنھیں اس آزمائشی آپریشن کے لیے چنا گیا ۔ انھیں گذشتہ بیس برسوں سے ہپا ٹائٹس کا مرض تھا جس کی وجہ سے ان کا جگر ناکارہ ہو چکا تھا۔ ڈاکٹروں نے انھیں بتا دیا تھا کہ ان کا علاج جگر کی پیوندکاری ہے ورنہ وہ بامشکل بارہ سے اٹھارہ ماہ تک ذندہ رہ سکیں گے۔
کرسٹی نے بتایا کہ انھیں جگر کی پیوند کاری کے متمنی مریضوں کی فہرست میں شامل کر دیا گیا اور یہ بھی بتادیا گیا تھا کہ شاید اتنے عرصے میں انھیں عطیہ شدہ جگر نہ مل پائے۔ وہ ہر روز ہسپتال سے آنے والی فون کال کا انتطار کرتے۔ اسی دوران ایک روز انھیں ہسپتال سے فون کال موصول ہوئی اور انھوں نے اس آزمائشی آپریشن کے لیے حامی بھر لی۔
کرسٹی کے مطابق ،'میری طبیعت میں تیزی سے بہتری آرہی ہے اور میں خود کو آج سے 15 برس پہلے جتنا جوان محسوس کر رہا ہوں'۔
اس آپریشن میں شامل سرجن وائل جے سیم کا کہنا ہے کہ مشین کے ذریعے عطیہ شدہ جگر کو محفوظ بنانے کا عمل جگر کی پیوند کاری میں ایک حوصلہ مند تبدیلی ہے۔'
ڈااکٹروں نے بتایا کہ آزمائشی آپریشن میں استعمال کئے جانے والا جگر صرف دس گھنٹے بعد ہی جگر کی پیوند کاری کے لیے استعمال کر لیا گیا تھا۔ لیکن، ماہرین سمجھتے ہیں کہ مشین کے ذریعے جگر کو 24 گھنٹے یا زیادہ سے زیادہ 72 گھنٹے تک انسانی جسم کے بغیر زندہ رکھا جا سکے گا۔
امریکہ اور یورپ میں ہر سال اعضا کی پیوند کاری کے تقریبا 13 ہزار آپریشن کئے جاتے ہیں، جبکہ اعضا کے عطیے کا انتظار کرنے والوں کی فہرست میں ہرسال 30 ہزار افراد شامل ہو جاتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک تہائی مریض عطیے کےانتظارمیں دنیا سے گزر جاتے ہیں، جبکہ 2 ہزارعطیہ شدہ جگر منجمد ہونے کے بعد آکسیجن کی کمی کے باعث ٹھیک طریقے سے کام کرنے کے قابل نہیں رہتے ہیں۔
محققین کے مطابق اس نئے طریقے سےانسانی اعضا کی پیوند کاری کے شعبے میں ایک انقلاب لایا جاسکتا ہے ۔ مشین کے ذریعے ایسے متاثرہ جگر کے افعال کو درست کیا جاسکے گا جومنجمد ہونے کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کر ناکارہ ہو جاتے ہیں۔ اس طرح آپریشن کے لیے دستیاب عطیہ شدہ جگر کی تعداد دوگنی ہو سکتی ہے، جبکہ یہی مشین کچھ تبدیلیوں کے ساتھ انسانی اعضا کی پیوند کاری کے دیگر شعبوں مثلا گردے اور پھپھڑے کی پیوند کاری کے آپریشن میں بھی استعمال کی جاسکے گی۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ مشین جلد ہی ترقی یافتہ ملکوں میں جگر کی پیوند کاری کے لیے استعمال کی جا سکے گی۔ توقع ہے کہ یورپ کی مارکیٹ میں یہ مشین آئندہ برس دستیاب ہو گی۔
جگر انسانی جسم کے لیے ایک کیمکل فیکٹری کا کام انجام دیتا ہے ۔جہاں بہت سے ایسڈ اور کیمیکل تیار ہوتے ہیں۔ نظام ہاضمہ کے فعل کو درست رکھنے کے لیے جگر بائل ایسڈ بناتا ہے، خوراک میں سے فاسد مواد علحیدہ کر کے دل کو صاف خون مہیا کرتا ہے اسی طرح خوراک سے حاصل ہونے والی ہر قسم کی توانائی کو جمع کرنا اور خون کو انفیکشن سے بچانا،ذخم کا خود سے بھرنا کے علاوہ ہارمونز اور میٹا بولزم کے نظام کوبھی مدد فراہم کرتا ہے یہ انسانی جسم کا ایک ایسا لازمی جزو ہے جس میں خرابی پیدا ہونے پر جسم کے دوسرے اعضاء بھی متاثر ہوتے ہیں۔
الکوحل، ہپاٹاٹئس سی یا پھر جگر کےکینسرکے مرض سے جگر کو شدید نقصان پہنچتا ہے جس سے یہ آہستہ آہستہ ناکارہ ہو جاتا ہے۔ ایسے مریض جن کا جگر ناکارہ ہو جاتا ہے ان کا علاج صرف جگر کی پیوند کاری سے کیا جا سکتا ہے۔