پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے علاقے سوات میں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی واپسی کی اطلاعات پر مقامی افراد تشویش میں مبتلا ہیں۔ مقامی رہنماؤں کی جانب سے سوات کے مختلف مقامات پر احتجاجی جلسوں اورریلیوں کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے جس میں حکومت پر زور دیا جا رہا ہے کہ دہشت گردوں کی واپسی کا راستہ روکا جائے۔
سوات قومی جرگہ کے ترجمان خورشید کاکاجی کا کہنا ہے کہ سوات میں حالات روزبروز خراب ہو رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ شہریوں کے جان و مال کا تحفظ حکومت کا فرض ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت کی ترجیحات کچھ اور ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ وادی کے مختلف علاقوں میں شدت پسندوں کی موجودگی کی اطلاعات آ رہی ہیں یہ سب کچھ ناقابلِ یقین ہے۔ فوجی آپریشن کی بھی صرف باتیں ہی ہو رہی ہیں۔
خیال رہے کہ سوات میں شدت پسندوں کی موجودگی کے پیشِ نظر سوات کی مختلف تحصیلوں میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے چوکیاں قائم کرنے کی اطلاعات آئی تھیں۔ لیکن تاحال سرکاری سطح پر کوئی فوجی آپریشن شروع کرنے کے حوالے سے آگاہ نہیں کیا گیا۔
سوات میں ریلیاں اور مظاہرے
سوات میں ٹی ٹی پی کی دوبارہ واپسی کی اطلاعات کے بعد وادی کے مختلف حصوں میں شہری سراپا احتجاج ہیں اور کئی مقامات پر احتجاجی ریلیوں اور جلسوں کا بھی اہتمام کیا جا رہا ہے۔
اتوار کو بھی مینگورہ میں ہزاروں افراد نے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا اور دہشت گردی کے خلاف نعرے لگاتے رہے۔ شہریوں کا کہنا تھا کہ اگر انتظامیہ شدت پسندی کا خاتمہ نہیں کر سکتی تو شہری خود میدان میں نکل کر دہشت گردوں کا مقابلہ کریں گے۔
بعض افراد کو یہ بھی گلہ ہے کہ سوات کے مختلف مقامات میں شدت پسند کھلے عام گھوم رہے ہیں، تاہم سیکیورٹی فورسز ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہیں۔
دہشت گردوں سے نمٹنے کے سوال پر خورشید کاکاجی کہتے ہیں کہ دہشت گردوں سے کس طرح نمٹنا ہے، یہ حکومت کو طے کرنا ہے۔ اُنہیں صرف اپنے علاقے میں امن چاہیے جو بڑی مشکل سے حالیہ برسوں میں حاصل ہوا تھا۔
SEE ALSO: طالبان چاہتے ہیں پاکستان ٹی ٹی پی کے معاملے پر صبر سے کام لے: سابق سفیر
دوسری جانب کور کمانڈر پشاور لیفٹننٹ جنرل حسن اظہر حیات نے سوات، بونیر اور مردان کے عمائدین کے جرگے سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ سوات میں بہت قربانیوں کے بعد امن قائم ہوا ہے۔ لہذٰا کسی کو دوبارہ قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
خیال رہے کہ سن 2009 میں سوات، بونیر اور گردونواح میں ٹی ٹی پی کے منظم ہونے اور اپنی عدالتیں قائم کرنے کے بعد پاکستانی فوج نے آپریشن کیا تھا جس سے قبل پوری سوات وادی کو خالی کرا لیا گیا تھا۔ آپریشن کے بعد فوج نے علاقے کو کلیئر کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ تاہم اس سال اگست کے اوائل سے ایک بار پھر ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کی واپسی اور مقامی قبائلی رہنماؤں کے قتل کے بعد تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
اس حوالے سے کچھ کالز بھی لیک ہوئی تھیں، جن میں مشتبہ افراد کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ وہ کسی ڈیل کے نتیجے میں اپنے علاقوں میں واپس آئے ہیں۔ تاہم سرکاری سطح پر اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔
خیبرپختونخوا کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف ایسی خبروں کی تردید کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات اگست کے اوائل میں ہوئے تھے۔ اس کے بعد ماحول میں کچھ تلخی پیدا ہوئی۔ لیکن اب بھی بات چیت کا عمل مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔
اُن کا کہنا تھا کہ حکومت کی یہ کوشش ہے کہ جنگ بندی پر عمل درآمد ہو تاکہ انسانی جانوں کو ضائع ہونے سے بچایا جاسکے۔ تاہم اُنہوں نے ان خبروں کی قطعی تردید کی کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ کوئی خفیہ معاہدہ ہوا ہے۔
سوات میں عسکریت پسندوں کی موجودگی کی اطلاعات اگست کے پہلے ہفتے میں سامنے آئی تھیں، جب ایک جھڑپ کے دوران دو فوجی اور ایک پولیس افسر کو مبینہ طور پر ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں نے یرغمال بنا لیا تھا۔ اس حوالے سے ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھی جس میں جنگجو فوجی اہلکاروں سے سوال و جواب کر رہے ہیں جب کہ قریب ہی ایک ڈی ایس پی رینک کا پولیس افسر زخمی حالت میں موجود تھا۔
بعدازاں روایتی جرگے کے نتیجے میں لگ بھگ 20 گھنٹوں بعد ان افراد کی رہائی عمل میں آئی تھی۔
چند روز قبل عسکریت پسندوں نے مٹہ کے ایک نواحی گاؤں میں سابقہ امن کمیٹی کے سربراہ محمد ادریس خان کی گاڑی کو دیسی ساختہ ریموٹ کنٹرول بم سے نشانہ بنا کر دو پولیس اہلکاروں سمیت آٹھ افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس واقعے کے دوسرے روز چارباغ قصبے سے ملحقہ علاقے دکوڑک میں سابقہ امن کمیٹی کے ایک رکن حاجی محمد شیریں کو گولیاں مارکر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
'خوف اور وحشت کا ماحول دوبارہ نہیں چاہتے'
سوات کے رہائشی انجینئر شان الہٰی کے ذہن میں بھی 2007 سے 2009 کے دوران ٹی ٹی پی کی پرتشدد کارروائیوں کی تلخ یادیں تازہ ہیں۔
اُن کے بقول اس زمانے میں جب وہ اسکول جاتے تھے تو اکثر او قات راستے میں مسخ شدہ لاشیں دیکھنے کو ملتی تھیں۔ وہ خوف اور وحشت کا عالم آج بھی اُن کے ذہن میں نقش ہے۔
شان الہٰی کہتے ہیں کہ دہشت گردی کی اس لہر میں وہ اپنے والد، چچا اور کزن سے محروم ہوئے۔ اس لیے اب وہ نہیں چاہتے کہ ان کا علاقہ دوبارہ دہشت گردی کا مرکز بنے۔
اُن کے بقول دہشت گردی سے نہ صرف انسانی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے بلکہ اس سے علاقے میں تعمیر و ترقی اور تعلیم کی سرگرمیاں بھی متاثر ہو جاتی ہیں۔
سوات کے حجام بھی پریشان
شیر زمان مینگورہ بازار میں گزشتہ 40 برس سے حجام کی دکان چلاتے ہیں۔ اُن کے بقول وہ نہیں چاہتے کہ ایک بار پھر اُن کا کاروبار دہشت گردی کی نذر ہو جائے۔
خیال رہے کے ٹی ٹی پی کے جنگجو ماضی میں داڑھی منڈوانے والے شہریوں اور ایسا کرنے والے حجاموں کو بھی نشانہ بناتے رہے ہیں۔
شیر زمان کہتے ہیں کہ اُن کی دکان بیچ چوراہےپر ہونے کے باعث تین دفعہ یہاں ہونے والے بم دھماکوں سے متاثر ہو چکی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ مینگورہ کے حجاموں کو سمجھ نہیں آتی تھی کہ آخر یہ لوگ چاہتے کیا تھے؟ کوئی آ کر کہتا کہ شیو نہ بنایا کرو۔ کوئی کہتا کہ فوجی کٹ نہ بنایا کریں جس کے باعث اُن سمیت کئی حجام علاقہ چھوڑ گئے تھے۔ تاہم حالات بہتر ہونے پر واپس آئے۔
سوات قومی جرگہ کے رہنما مختیار خان یوسفزئی کا کہنا ہے کہ حالات بہت بدل گئے ہیں۔ اب 2007 نہیں ہے۔ لوگوں کا شعور بیدار ہو چکا ہے۔ اگر ٹی ٹی پی نے دوبارہ اپنے قدم جمانے کی کوشش کی تو اسے سخت عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
مختیار خان کہتے ہیں کہ 2007 اور2009 کے دوران بہت سے لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر پشاور اور دیگر علاقوں میں منتقل ہو گئے تھے، تاہم امن بحال ہونے پر یہ لوگ واپس آئے ہیں اور اب کسی صورت لوگ اپنا علاقہ نہیں چھوڑیں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
وہ کہتے ہیں کہ حالیہ سیلاب نے لوگوں کو متاثر کیا اور اب ٹی ٹی پی کی واپسی کی پریشانی نے لوگوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔
مینگورہ سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی نیاز احمد خان کہتے ہیں جب پہلے اس علاقے میں طالبان آئے تھے تو وہ اسلامی نظام نافذ کرنا چاہتے تھے جس کی وجہ سے مقامی سطح پر بھی انہیں کچھ حمایت ملی، لیکن اب ان کے پاس کوئی ایجنڈا نہیں ہے۔
اُن کے بقول اب بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ٹی ٹی پی کے جنگجو بدلہ لینے کی غرض سے اس علاقے میں واپسی کی کوششیں کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئے روز ٹارگٹ کلنگ کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔