دیگر ہم وطنوں کی طرح مجھے بھی بے چینی تھی کہ اٹھارہ کروڑ عوام کا نیا ’امپورٹڈ مسیحا‘ اس قوم کو چورن کی ایسی کون سی نئی پھکی دے گا، جس سے اس کی جملہ تکالیف آناً فاناً غائب ہو جائیں گی؟
واشنگٹن —
پرسوں رات سے مسلسل جاگ کر حالت خراب ہوگئی ہے۔ کئی مرتبہ خود کو ملامت کر چکی ہوں، ’کس نے کہا تھا لانگ مارچ میں اتنی دلچسپی لینے کو؟‘
امریکہ اور پاکستان میں وقت کا فرق دس گھنٹے ہے۔ زمین کے ایک کنارے پر سورج ڈھلتا ہے تو دوسرے سرے پر ابھر رہا ہوتا ہے۔ یہ فرق اتنا زیادہ ہے کہ اگر امریکہ میں بیٹھے لوگ پاکستان کے حالات و واقعات سے باخبر رہنے میں دلچسپی رکھتے ہوں تو اس کے لیے انہیں پوری رات کالی کرنی پڑتی ہے۔ پچھلی دو راتوں سے میں بھی ٹی وی کے آگے یہی تہیہ کرکے بیٹھی تھی کہ ’لانگ مارچ‘ پر زیادہ وقت ضائع نہیں کروں گی۔ بس چیدہ چیدہ ہیڈ لائنز دیکھوں گی اور اللہ اللہ خیر صلہ ۔۔۔
لیکن، دیگر ہم وطنوں کی طرح مجھے بھی بے چینی تھی کہ اٹھارہ کروڑ عوام کا نیا ’امپورٹڈ مسیحا‘ اس قوم کو چورن کی ایسی کون سی نئی پھکی دے گا جس سے اس کی جملہ تکالیف آناً فاناً غائب ہو جائیں گی؟ کینیڈا میں اتنے سالوں کی خود ساختہ جلاوطنی نے مولانا طاہر القادری کو ایسی کونسی کرامات بخشی ہیں جس سے وہ اپنی قوم کو فیضیاب کرنا چاہتے ہیں؟ آخر ان کے ترکش میں ایسے کونسے تیر ہیں جنہیں نشانے پر باندھنا مقصود ہے؟
پرسوں رات ٹی وی لگایا تو انکا قافلہ لالہ موسیٰ پہنچ چکا تھا۔ فجر کی نماز کا وقفہ لیا جا رہا تھا۔ جس کے بعد قافلے نے دوبارہ اپنی منزل پر روانہ ہونا تھا۔ ٹی وی رپورٹرز پل پل کی خبریں دے رہے تھے۔ ڈی ایس این جی وینز چوکس کھڑی تھیں اور ’لائیو مناظر‘ ہر چینل پر دکھائے جا رہے تھے۔ جی ٹی روڈ پر گاڑیوں کا ایک ہجوم تھا ۔۔۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ خواتین کے ساتھ ساتھ چھوٹے بچے بھی اس کاروان کا حصہ بنے ہوئے تھے۔
چند گھنٹے اور گزرے۔ قافلہ اسلام آباد پہنچ گیا ۔۔۔ بلو ایریا کی سڑک پر لوگ ہی لوگ تھے جن کے ہاتھوں میں جھنڈے اور لبوں پر نعرے تھے ۔۔۔ اچانک سٹیج پر ہلچل سی مچی۔ طاہر القادری کے مصاحبین انہیں بلٹ پروف جیکٹس کے جھرمٹ میں بلٹ پروف کیبن تک لائے۔ قادری صاحب نے قوم سے اپنا خطاب شروع کیا۔ بعد میں یہ خطاب دو دنوں پر محیط ہوگیا جس میں قادری صاحب نے اپنا ایجنڈا اور مطالبات پیش کرنے تھے۔
دو روز سے میں قادری صاحب کی پرمغز گفتگو کا مفہوم سمجھنے کی کوشش میں ہوں ۔۔۔ لانگ مارچ سے انقلاب تک اور کربلا سے لے کر قرآن کے ان واسطوں تک جو وہ مجمعے کو روکنے کے لیے دیتے رہے، ابھی تک کسی ربط کا سرا نہیں مل رہا ۔۔۔
ان کی تقریر بلاشبہ کئی حوالوں سے یادگار رہی ۔۔۔ قادری صاحب سیکورٹی کے پیش ِ نظر اپنا فکر انگیز خطاب ایک بلٹ پروف کنٹینر میں بیٹھ کر دے رہے تھے۔ وہ مجمعے کو باور کرا رہے تھے کہ حکمران یزیدوں کا ایک ٹولہ ہیں جبکہ 'صدائے حق' بلند کرنے کی پاداش میں کھلے آسمان تلے بیٹھے اپنے ہزاروں متوالوں کو ذہنی طور پر کربلا جیسی کسی صورتحال کے سامنے کے لیے تیار بھی کر رہے تھے ۔۔۔ وہ رسول ِ کریم ﷺ، انکے صحابیوں اور خلفائے راشدین کی مثالیں دے کر لوگوں کا جوش اور ولولہ گرمانے کی کوشش بھی کرتے رہے۔ لیکن نہ جانے کیوں ایسا لگ رہا تھا کہ اسلام آباد کی ٹھٹھرتی سردی نے جیسے مجمعے کے جوش کو بھی ٹھنڈا کر دیا تھا۔ نہ کوئی نعرہ نہ تالیاں ۔۔۔ البتہ، خطاب کے پہلے روز وزیر ِ اعظم پاکستان کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد مجمعے کا والہانہ پن اس فیصلے کو ’لانگ مارچ‘ کی ’کرامات‘ سے تشبیہہ دیتا دکھائی دے رہا تھا۔
طاہر القادری صاحب کی جانب سے حکومت پر لعن طعن، سخت زبان اور بعض نازیبا الفاظ نے جی خراب کیا تو میں نے سوشل میڈیا کا رخ کیا جہاں لگتا تھا کہ پورا پاکستان ’لانگ مارچ‘ کی ہی بات کر رہا ہے۔ مجھے یقین ہے اگر مولانا صاحب کو اپنے ’فائیو سٹار کنٹینر‘ سے نکلنے اور عوام کو اسلام آباد میں نامعلوم مدت کے لیے پڑاؤ ڈالنے کی صلاح دینے سے وقت ملے تو سوشل میڈیا پر اپنی تقریر کی ’پذیرائی‘ سے انہیں حقیقت کا ادراک کرنے میں آسانی رہے گی ۔۔۔
یہ لانگ مارچ اپنے پیچھے بہت سے سوالات چھوڑ گیا ہے ۔۔۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ جمہوری حکومت اپنی پانچ سالہ مدت ختم کرنے کو ہے ۔۔۔ دو تین ماہ میں انتخابات کی باتیں کی جا رہی ہیں ۔۔۔ طاہر القادری صاحب کو اسمبلیاں تحلیل کرنے، اسلام آباد کے ڈی چوک پر عوام کی اسمبلی بنانے اور لانگ مارچ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتوں کی مدد کی صورت میں چالیس لاکھ کے مجمعے کا دعویٰ کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ ۔۔۔
لیکن پھر خیال آتا ہے کہ اس میں ان کا قصور نہیں ۔۔۔ سیاست کھیل ہی ایسا ہے ۔۔۔ بہت پہلے شاعر ِ مشرق نے سیاست کو شطرنج کی بساط قرار دیا تھا ۔۔۔ ایک ایسی بساط، جس کا کونسا مہرہ کب، کہاں، کیسے اور کیوں چلنا ہے، یہ شاطر کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔۔۔
اور ’لانگ مارچ‘ کے اس کھیل میں ’شاطر‘ کون ہے، یہ طے ہونا ابھی باقی ہے !!
بقول اقبال
اس کھیل میں تعین ِ مراتب ہے ضروری
شاطر کی عنایت سے تُو فرزیں، میں پیادہ
پیادہ تو اک مہرہ ِ ناچیز ہے لیکن
فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ ۔۔۔
امریکہ اور پاکستان میں وقت کا فرق دس گھنٹے ہے۔ زمین کے ایک کنارے پر سورج ڈھلتا ہے تو دوسرے سرے پر ابھر رہا ہوتا ہے۔ یہ فرق اتنا زیادہ ہے کہ اگر امریکہ میں بیٹھے لوگ پاکستان کے حالات و واقعات سے باخبر رہنے میں دلچسپی رکھتے ہوں تو اس کے لیے انہیں پوری رات کالی کرنی پڑتی ہے۔ پچھلی دو راتوں سے میں بھی ٹی وی کے آگے یہی تہیہ کرکے بیٹھی تھی کہ ’لانگ مارچ‘ پر زیادہ وقت ضائع نہیں کروں گی۔ بس چیدہ چیدہ ہیڈ لائنز دیکھوں گی اور اللہ اللہ خیر صلہ ۔۔۔
لیکن، دیگر ہم وطنوں کی طرح مجھے بھی بے چینی تھی کہ اٹھارہ کروڑ عوام کا نیا ’امپورٹڈ مسیحا‘ اس قوم کو چورن کی ایسی کون سی نئی پھکی دے گا جس سے اس کی جملہ تکالیف آناً فاناً غائب ہو جائیں گی؟ کینیڈا میں اتنے سالوں کی خود ساختہ جلاوطنی نے مولانا طاہر القادری کو ایسی کونسی کرامات بخشی ہیں جس سے وہ اپنی قوم کو فیضیاب کرنا چاہتے ہیں؟ آخر ان کے ترکش میں ایسے کونسے تیر ہیں جنہیں نشانے پر باندھنا مقصود ہے؟
پرسوں رات ٹی وی لگایا تو انکا قافلہ لالہ موسیٰ پہنچ چکا تھا۔ فجر کی نماز کا وقفہ لیا جا رہا تھا۔ جس کے بعد قافلے نے دوبارہ اپنی منزل پر روانہ ہونا تھا۔ ٹی وی رپورٹرز پل پل کی خبریں دے رہے تھے۔ ڈی ایس این جی وینز چوکس کھڑی تھیں اور ’لائیو مناظر‘ ہر چینل پر دکھائے جا رہے تھے۔ جی ٹی روڈ پر گاڑیوں کا ایک ہجوم تھا ۔۔۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ خواتین کے ساتھ ساتھ چھوٹے بچے بھی اس کاروان کا حصہ بنے ہوئے تھے۔
چند گھنٹے اور گزرے۔ قافلہ اسلام آباد پہنچ گیا ۔۔۔ بلو ایریا کی سڑک پر لوگ ہی لوگ تھے جن کے ہاتھوں میں جھنڈے اور لبوں پر نعرے تھے ۔۔۔ اچانک سٹیج پر ہلچل سی مچی۔ طاہر القادری کے مصاحبین انہیں بلٹ پروف جیکٹس کے جھرمٹ میں بلٹ پروف کیبن تک لائے۔ قادری صاحب نے قوم سے اپنا خطاب شروع کیا۔ بعد میں یہ خطاب دو دنوں پر محیط ہوگیا جس میں قادری صاحب نے اپنا ایجنڈا اور مطالبات پیش کرنے تھے۔
دو روز سے میں قادری صاحب کی پرمغز گفتگو کا مفہوم سمجھنے کی کوشش میں ہوں ۔۔۔ لانگ مارچ سے انقلاب تک اور کربلا سے لے کر قرآن کے ان واسطوں تک جو وہ مجمعے کو روکنے کے لیے دیتے رہے، ابھی تک کسی ربط کا سرا نہیں مل رہا ۔۔۔
ان کی تقریر بلاشبہ کئی حوالوں سے یادگار رہی ۔۔۔ قادری صاحب سیکورٹی کے پیش ِ نظر اپنا فکر انگیز خطاب ایک بلٹ پروف کنٹینر میں بیٹھ کر دے رہے تھے۔ وہ مجمعے کو باور کرا رہے تھے کہ حکمران یزیدوں کا ایک ٹولہ ہیں جبکہ 'صدائے حق' بلند کرنے کی پاداش میں کھلے آسمان تلے بیٹھے اپنے ہزاروں متوالوں کو ذہنی طور پر کربلا جیسی کسی صورتحال کے سامنے کے لیے تیار بھی کر رہے تھے ۔۔۔ وہ رسول ِ کریم ﷺ، انکے صحابیوں اور خلفائے راشدین کی مثالیں دے کر لوگوں کا جوش اور ولولہ گرمانے کی کوشش بھی کرتے رہے۔ لیکن نہ جانے کیوں ایسا لگ رہا تھا کہ اسلام آباد کی ٹھٹھرتی سردی نے جیسے مجمعے کے جوش کو بھی ٹھنڈا کر دیا تھا۔ نہ کوئی نعرہ نہ تالیاں ۔۔۔ البتہ، خطاب کے پہلے روز وزیر ِ اعظم پاکستان کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد مجمعے کا والہانہ پن اس فیصلے کو ’لانگ مارچ‘ کی ’کرامات‘ سے تشبیہہ دیتا دکھائی دے رہا تھا۔
طاہر القادری صاحب کی جانب سے حکومت پر لعن طعن، سخت زبان اور بعض نازیبا الفاظ نے جی خراب کیا تو میں نے سوشل میڈیا کا رخ کیا جہاں لگتا تھا کہ پورا پاکستان ’لانگ مارچ‘ کی ہی بات کر رہا ہے۔ مجھے یقین ہے اگر مولانا صاحب کو اپنے ’فائیو سٹار کنٹینر‘ سے نکلنے اور عوام کو اسلام آباد میں نامعلوم مدت کے لیے پڑاؤ ڈالنے کی صلاح دینے سے وقت ملے تو سوشل میڈیا پر اپنی تقریر کی ’پذیرائی‘ سے انہیں حقیقت کا ادراک کرنے میں آسانی رہے گی ۔۔۔
یہ لانگ مارچ اپنے پیچھے بہت سے سوالات چھوڑ گیا ہے ۔۔۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ جمہوری حکومت اپنی پانچ سالہ مدت ختم کرنے کو ہے ۔۔۔ دو تین ماہ میں انتخابات کی باتیں کی جا رہی ہیں ۔۔۔ طاہر القادری صاحب کو اسمبلیاں تحلیل کرنے، اسلام آباد کے ڈی چوک پر عوام کی اسمبلی بنانے اور لانگ مارچ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتوں کی مدد کی صورت میں چالیس لاکھ کے مجمعے کا دعویٰ کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ ۔۔۔
لیکن پھر خیال آتا ہے کہ اس میں ان کا قصور نہیں ۔۔۔ سیاست کھیل ہی ایسا ہے ۔۔۔ بہت پہلے شاعر ِ مشرق نے سیاست کو شطرنج کی بساط قرار دیا تھا ۔۔۔ ایک ایسی بساط، جس کا کونسا مہرہ کب، کہاں، کیسے اور کیوں چلنا ہے، یہ شاطر کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔۔۔
اور ’لانگ مارچ‘ کے اس کھیل میں ’شاطر‘ کون ہے، یہ طے ہونا ابھی باقی ہے !!
بقول اقبال
اس کھیل میں تعین ِ مراتب ہے ضروری
شاطر کی عنایت سے تُو فرزیں، میں پیادہ
پیادہ تو اک مہرہ ِ ناچیز ہے لیکن
فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ ۔۔۔