پاکستان میں موسم سرما کے آتے ہی گھریلو صارفین اور صنعتوں کو گیس کی عدم دستیابی کے باعث توانائی کے بحران کی نئی لہر دیکھنے میں آ رہی ہے۔
گیس کی قلت کی ایک بڑی وجہ حکومت کو لیکویفائیڈ نیچرل گیس (ایل این جی) کی مطلوبہ مقدار کو حاصل کرنے میں تاحال ناکامی بتائی جاتی ہے جب کہ مقامی سطح پر گیس کے دستیاب وسائل اور ذخائر میں بھی ہر سال کمی واقع ہو رہی ہے۔
ماہرین اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ آئندہ چند ہفتوں میں یہ بحران شدت اختیار کر سکتا ہے اور گیس کی کمی کے باعث موسم سرما میں گھریلو اور صنعتی صارفین کو مشکلات کا سامنا رہے گا۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ حکومت کی جانب سے ایل این جی کی دستیابی کے بر وقت فیصلے نہ کرنے کے باعث بحران کی صورتِ حال پیدا ہوئی ہے۔
دوسری جانب وفاقی وزیرِ توانائی حماد اظہر کہتے ہیں کہ حکومت گیس کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے تمام ممکن اقدامات کر رہی ہے۔
ان کے مطابق گیس کی قلت ایل این جی کی عدم دستیابی کے باعث نہیں ہے بلکہ ملک میں دستیاب گیس کے وسائل میں بتدریج کمی کی وجہ سے ہے جو سالانہ 10 فی صد تک کم ہو رہے ہیں۔
قلیل مدتی پالیسی بحران کی وجہ
توانائی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں گیس کی طلب پورا کرنے کے لیے مقامی سطح پر پیدا ہونے والی گیس کے ساتھ ایل این جی کی درآمد کر کے اس بحران سے کسی طور نمٹا جا سکتا ہے۔
پاکستان ایل این جی لیمٹڈ کے سابق چیئرمین ڈاکٹر منظور احمد کہتے ہیں کہ حکومت کی طویل مدتی پالیسی نہیں تھی اور گزشتہ مہینوں میں کم قیمت پر ایل این جی کے دستیاب معاہدے حاصل نہیں کیے گئے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں وہ کہتے ہیں کہ حکومتی سطح پر سردیوں کی باقاعدہ منصوبہ بندی نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے گیس کی کمی ہوتی ہے۔ البتہ اس سال عالمی سطح پر توانائی کی قلت کے باعث یہ بحران شدید ہو سکتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
پاکستان کی حکومت نے رواں موسم سرما کے لیے 11 ایل این جی کارگوز کے آرڈرز کیے تھے تاہم دو کمپنیوں نے یہ کارگو پہنچانے سے معذوری ظاہر کی جس کے سبب پاکستان کو ایل این جی کی دستیابی میں مشکلات کا سامنا ہے۔
وزیرِ توانائی حماد اظہر نے پاکستان کے نجی نشریاتی ادارے ’جیو نیوز‘ کے ایک شو میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گیس کی طلب اور رسد کو دیکھتے ہوئے ایل این جی کے دو مزید کارگوز منگوائے جا رہے ہیں جو کہ نومبر اور دسمبر میں کراچی پورٹ پہنچ جائیں گے۔
توانائی امور کے ماہر علی خضر کہتے ہیں کہ ملک میں گیس کے مقامی ذخائر نصف حد تک گر چکے ہیں جو کہ بتدریج نو فی صد تک سالانہ کم ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسی صورت حال کو دیکھتے ہوئے حکومت نے ایل این جی منگوانے کا فیصلہ کیا اور کراچی پورٹ پر ایل این جی ٹرمینل لگائے گئے۔
توانائی کے متبادل ذرائع اپنانے پر زور
ڈاکٹر منظور احمد کہتے ہیں کہ بحران سے نجات کے لیے حکومت کو ایل این جی کے چار سے پانچ کارگو درکار ہوں گے جو کہ موجودہ حالات میں آسان نہیں ہے۔
وہ سمجھتے ہیں کہ بحران کہ وجہ حکومتی سطح پر فیصلہ سازی اور مارکیٹ کی صورتِ حال کا اندازہ نہ ہونے کے ساتھ ساتھ سرکاری افسران میں ملک میں احتساب کے قوانین کا خوف ہے۔
علی خضر کہتے ہیں کہ درآمدی گیس کی قیمت عالمی مارکیٹ میں بہت بڑھ چکی ہے جو کہ مقامی گیس کی قیمت پر فراہم کرنے سے گردشی قرضے بڑھیں گے۔
ان کے بقول حکومت کو دباؤ میں آکر مہنگی ایل این جی نہیں منگوانی چاہیے بلکہ متبادل ذرائع کی طرف جانا چاہیے۔
Your browser doesn’t support HTML5
وہ کہتے ہیں کہ ایل این جی پر چلنے والے بجلی گھروں کو فرنس آئل یا کوئلے پر منتقل کرکے اور سی این جی کی جگہ پیٹرول کا استعمال کرنا چاہیے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث حکومت کو ترجیحی بنیاد پر منصوبہ بندی کرکے گیس بحران سے نمٹنا ہوگا۔
حکومت توانائی کے اس نئے بحران سے نمٹنے کی کوششوں کے طور پر لوڈ مینجمنٹ پلان لے کر آ رہی ہے۔ اس پلان کے مطابق موسم سرما میں گیس صارفین کو 24 گھنٹے کے دوران صرف 9 گھنٹے گیس دستیاب ہو گی۔
گیس دن میں تین بار تین تین گھنٹوں میں یعنی صبح، دوپہر اور رات میں دستیاب ہوگی۔ اس پلان کے تحت 15 گھنٹے کی طویل لوڈشیڈنگ کا سامنا رہے گا۔