وزیرِ اعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی برائے پٹرولیم ندیم بابر نے موسمِ سرما میں گیس کی لوڈ شیڈنگ کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے ملک میں قدرتی گیس کی پیداوار اور طلب میں خلیج بڑھتی رہی ہے جس کی وجہ سے موسمِ سرما میں گیس کی قلت کا سامنا رہے گا۔
ندیم بابر نے وائس آف امریکہ کو دیے گئے ایک انٹرویو کے دوران بتایا کہ پاکستان میں مقامی گیس کی پیداوار میں سالانہ سات سے نو فی صد تک کمی آ رہی ہے۔
ان کے بقول سردیوں میں گیس کی طلب کے مطابق لوڈ مینجمنٹ کرنا ہو گی جس کے لیے وزارتِ توانائی ایک پلان ترتیب دے رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ لوڈ مینجمنٹ کے تحت سی این جی، کھاد فیکٹریوں اور بعض صنعتوں کو گیس کی محدود فراہمی کی جائے گی تاکہ گھریلو صارفین کم سے کم متاثر ہوں۔
معاونِ خصوصی نے بتایا کہ موسمِ سرما میں 1.2 ارب کیوبک فٹ قدرتی مائع گیس (ایل این جی) بھی درآمد کی جائے گی اور ایل این جی کے دونوں ٹرمینل پوری استعداد کے ساتھ چلائے جائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ گیس کی مقامی پیداوار بھی زیادہ سے زیادہ حاصل کی جائے گی۔
ندیم بابر کے مطابق گیس کی کمی کی صورتِ حال آئندہ دو سال تک برقرار رہے گی جس کی بنیادی وجہ گزشتہ پانچ برسوں میں گیس کی تلاش کا کوئی نیا معاہدہ نہ کرنا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت نے گزشتہ سال تیل و گیس کی دریافت کے لیے 10 بلاکس کے ٹینڈر دیے ہیں جب کہ آئندہ ماہ مزید 20 بلاکس میں تلاش کے لیے ٹینڈر دیے جائیں گے۔
معاونِ خصوصی نے امید ظاہر کی کہ وہ لوڈ مینجمنٹ کے اپنے پلان کے ذریعے گیس کی کمی کی صورتِ حال پر کسی حد تک قابو پا لیں گے۔
زمین اور سمندر میں گیس و تیل کی تلاش کے لیے معاہدے
ندیم بابر کہتے ہیں کہ پاکستان میں تیل و گیس کے ذخائر کی تلاش میں بہت سی عالمی کمپنیاں دلچسپی ظاہر کر رہی ہیں اور حکومت زمین کے ساتھ ساتھ سمندر میں بھی بڑے ذخائر ڈھونڈنے کے معاہدے کر رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ آئندہ ماہ بلوچستان سمیت چاروں صوبوں میں توانائی کمپنیوں کے ساتھ تیل اور گیس کی تلاش کے لیے معاہدے کیے جائیں گے۔ رواں سال دسمبر میں سمندر میں تیل و گیس کے ذخائر تلاش کے لیے سات سے 10 بلاکس ٹینڈر کیے جائیں گے۔
ندیم بابر کے بقول حکومت تیل و گیس کی مقامی پیداوار بڑھانے کے لیے سرمایہ کاری میں خاصی دلچسپی رکھتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سال آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (او جی ڈی سی ایل) کی جانب سے ذخائر کی تلاش کے لیے 25 جب کہ مجموعی طور پر 80 کنویں کھودے گئے تھے۔
'مہنگا ہونے کے باوجود قطر ایل این جی معاہدے پر عمل کریں گے'
حکمران جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کے سابقہ دور حکومت میں قطر کے ساتھ ایل این جی گیس کی فراہمی کے معاہدوں پر خاصی تنقید کرتی رہی ہے۔
قطر سے ایل این جی درآمد کرنے کے بارے میں ندیم بابر نے کہا کہ گزشتہ حکومت کا قطر سے ایل این جی کی خریداری کا معاہدہ آج کی مارکیٹ کے تناظر میں بہت مہنگا ہے، تاہم حکومت اس معاہدے پر عمل درآمد کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت قطر سے اضافی ایل این جی بھی حاصل کر رہی ہے جو گزشتہ معاہدے سے 25 فی صد سستی ہے۔ البتہ ان کا کہنا تھا کہ مارکیٹ میں قیمتوں میں اضافے اور کمی کا یہ عمل چلتا رہتا ہے۔
معاون خصوصی نے بتایا کہ اس وقت گیس کی ملکی ضرورت کا 25 سے 30 فی صد حصہ ایل این جی کی درآمد سے پورا کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک گیس کی مقامی پیداوار میں اضافہ نہیں ہو جاتا، آئندہ برسوں میں ایل این جی پر انحصار مزید بڑھتا رہے گا۔
ندیم بابر کا کہنا تھا کہ ملک میں تین نئی آئل ریفائنریز لگانے پر کام ہو رہا ہے جو مختلف مراحل میں ہے۔ یہ ریفائنریاں چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے اشتراک سے لگائی جا رہی ہیں۔
'تاپی پر آئندہ سال تعمیراتی کام کا آغاز ہوگا'
وزیرِ اعظم کے معاون خصوصی نے بتایا کہ ایران، پاکستان گیس پائپ لائن کے متبادل کے طور پر ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت گیس پائپ لائن منصوبے (تاپی) پر تیزی سے کام جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ تاپی معاہدے پر زیادہ تر کام ہو چکا ہے جسے حتمی شکل دینے کے لیے ترکمانستان کا وفد رواں ہفتے پاکستان آیا تھا۔ یہ منصوبہ قابلِ عمل اور وقت کی ضرورت ہے جس کا تعمیراتی کام آئندہ سال کے آغاز میں شروع ہو جائے گا۔
ندیم بابر نے کہا کہ ایران، پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کے برعکس تاپی پر کسی قسم کی پابندیاں نہیں ہیں اور چار ملکوں سے پائپ لائن گزرنے کی وجہ سے خطّے میں امن و امان، معاشی اور سفارتی صورتِ حال میں بہتری آئے گی۔
معاون خصوصی نے کہا کہ ایران، پاکستان گیس پائپ لائن پر امریکی پابندیوں کی وجہ سے کام رکا ہوا ہے۔ عالمی سطح پر ان پابندیوں کے خاتمے کے بعد ہی اس منصوبے پر کام بحال ہو سکے گا۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ نے پاکستان پر واضح کر رکھا ہے کہ ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن بنانے کی صورت میں ہم پابندیوں کی زد میں آ سکتے ہیں اور پاکستان معاشی طور پر پابندیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
ندیم بابر نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں گیس انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس (جی آئی ڈی سی) کی وصولی کے لیے رواں ماہ سے بلنگ شروع کر دی ہے۔ اس سے حاصل ہونے والی رقم کو 'نارتھ ساؤتھ گیس پائپ لائن' کی تعمیر، کراچی میں ایل این جی ٹرمینل لگانے اور تاپی میں شراکت داری کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے جی آئی ڈی سی ایکٹ 2015 کے تحت صنعتی صارفین سے ٹیکس کی وصولی کے فیصلے کو درست قرار دیتے ہوئے 417 ارب روپے کے بقایا جات وصول کرنے کا فیصلہ دیا تھا۔
'ہوا اور سورج سے بجلی کی پیداوار بڑھائیں گے'
ملک میں توانائی کی پیداوار بڑھانے اور تونائی سے متعلق پالیسی پر بات کرتے ہوئے ندیم بابر نے کہا کہ اگرچہ وہ پیٹرولیم کے معاونِ خصوصی ہیں۔ لیکن توانائی سے متعلق پالیسی میں بھی ان کا کردار رہتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت نے حال ہی میں 'رینیو ایبل انرجی پالیسی' متعارف کرائی ہے جس کا مقصد سورج، ہوا اور پانی سے بجلی کے حصول کو فروغ دینا ہے۔
"اس پالیسی کے تحت آئندہ پانچ برسوں میں بجلی کی کل ضرورت کا 20 فی صد حصہ ہوا اور سورج سے حاصل کیا جائے گا۔ اس وقت ان ذرائع سے حاصل ہونے والی بجلی مجموعی ملکی پیداوار کا صرف 6 فی صد ہے۔"
ندیم بابر کا کہنا تھا کہ 2030 تک قابلِ تجدید ذرائع سے حاصل ہونے والی بجلی ملک کی مجموعی پیداوار میں 30 فی صد حصہ ڈالے گی۔ اگر پن بجلی کو بھی شامل کیا جائے تو یہ ملکی توانائی کا 70 فی صد ہو جائے گی۔
"اس پالیسی کے تحت حکومت ہر سال اضافی بجلی کے حصول کے لیے اوپن ٹینڈر دیا کرے گی اور ٹیکنالوجی کی مقامی سطح پر منتقلی کے لیے مشینری اور پرزہ جات کی پاکستان میں تیاری کے لیے ہر قسم کے ٹیکسز میں ریلیف و دیگر مراعات دی جائیں گی۔"
سعودی عرب سے ادھار تیل کا معاہدہ دوبارہ بحال ہو گا؟
ندیم بابر کہتے ہیں کہ سعودی عرب سے ادھار پر تیل حاصل کرنے کے معاہدے کی بحالی پر بات چیت جاری ہے اور حکومت پرامید ہے کہ نظرِ ثانی شدہ معاہدے کے ساتھ برادرِ اسلامی ملک سے تیل کی دوبارہ ترسیل کا جلد آغاز ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کے ساتھ سالانہ تین ارب ڈالر کے ادھار تیل کا معاہدہ تھا۔ البتہ گزشتہ مالی سال میں پاکستان نے صرف پونے دو ارب ڈالر کی سہولت استعمال کی۔
ان کے بقول گزشتہ مالی سال کے معاہدے کی مکمل رقم کا تیل حاصل نہ کرنے کی بنا پر ممکن ہے کہ نئے معاہدے میں رقم کی حد کم ہو۔ لیکن وہ پرامید ہیں کہ آنے والے ہفتوں میں سعودی عرب کے ساتھ یہ معاہدہ بحال ہو جائے گا۔
یاد رہے کہ اکتوبر 2018 میں وزیرِ اعظم عمران خان کے دورۂ ریاض کے موقع پر سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو 12 ارب ڈالر کا پیکج دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
اس پیکج میں تاخیر سے ادائیگی کی بنیاد پر سعودی عرب نے پاکستان کو سالانہ تین ارب ڈالر مالیت کا تیل دینے کا معاہدہ کیا تھا اور یہ سلسلہ تین سال تک جاری رہنا تھا۔
چند ہفتے قبل وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کے کشمیر اور سعودی عرب سے متعلق ایک بیان کے بعد یہ تاثر ابھرا تھا کہ جیسے دونوں ملکوں کے تعلقات میں سرد مہری پیدا ہو گئی ہو۔
ندیم بابر نے بتایا کہ سعودی عرب کے علاوہ دو مزید ملکوں سے قلیل مدت کے لیے مؤخر ادائیگی پر تیل کے حصول کے معاہدے حتمی مراحل میں ہیں۔ معاہدوں کے بعد ان ممالک سے پٹرولیم مصنوعات کی ترسیل فوری شروع ہو جائے گی۔
ندیم بابر کا کہنا تھا کہ کویت سے ادھار پر تیل کی ترسیل کا عمل بلا رکاوٹ جاری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ رواں سال سعودی عرب، کویت اور دیگر دو ممالک سے لگ بھگ ڈھائی ارب ڈالر کا تیل مؤخر ادائیگیوں پر حاصل ہو گا جو ادائیگیوں کے توازن میں خاصا مددگار رہے گا۔
خیال رہے کہ معاشی مشکلات کی وجہ سے پاکستان اپنے دوست ممالک سے مؤخر ادائیگیوں پر تیل حاصل کر رہا ہے۔
پاکستان اپنی تیل کی ضرورت پوری کرنے کے لیے زیادہ تر درآمد شدہ پیٹرولیم مصنوعات پر انحصار کرتا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان سالانہ تقریباً 14 ارب ڈالر مالیت کی پیٹرولیم مصنوعات درآمد کرتا ہے۔