تعلیم کے حقوق کی علمبردار ملالہ یوسفزئی نے کہا ہے کہ دنیا کو یکجا ہو کر طالبان کی پابندیوں کا شکار افغان خواتین کے بنیادی حقوق کی حمایت کرنا چاہیے۔
پاکستان کی نوبیل انعام یافتہ کارکن نے وائس آف امریکہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ افغانستان کے عوام، مسلم ممالک اور عالمی برادری کو افغان خواتین کی تعلیم اور کام کے حقوق کی جنگ میں ان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔
ملالہ کی طرف سے عالمی اظہارِ یکجہتی پر ایسےوقت میں زور دیا جا رہا ہے جب گزشتہ ماہ طالبان نے خواتین کے یونیورسٹی جانے اور غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ کام کرنے پر پابندی لگا دی تھی۔
اگست 2021 میں افغانستان میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد طالبان نے ملک میں خواتین پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ اس وقت افغان خواتین کو ثانوی تعلیم، حکومت میں کام کرنے، قریبی مرد رشتہ دار کے بغیر طویل سفر کرنے اور پارک اور جم جانے پر پابندی کا سامنا ہے۔
ملالہ یوسفزئی نے تعلیم کے عالمی دن کے موقع پر وائس آف امریکہ کی افغان سروس کی نذرانہ غفار یوسفزئی کو بتایا کہ طالبان کے اقدامات اسلام کے خلاف ہیں۔"ہم سب جانتے ہیں کہ خواتین کو تعلیم سے روکنا ہماری ثقافت اور مذہب کے خلاف ہے۔"
ان کے بقول "ہم سب جانتے ہیں کہ اسلام میں تعلیم تمام انسانوں بشمول خواتین پر فرض ہے۔ہمارے مذہب نے ہمیں تعلیم اور علم حاصل کرنے کا درس دیا ہے، طالبان کی یہ پابندی اسلام کے خلاف ہے۔"
SEE ALSO: افغان طالبان کی پابندی کے باوجود خفیہ اسکول بچیوں کی تعلیم میں مصروفانہوں نے مسلم ممالک سے افغان خواتین کے لیے آواز اٹھانے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ بین الاقوامی سطح پر رہنماؤں کو اپنا کردار ادا کرنے اور افغان خواتین کے ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔
ملالہ یوسف زئی نے کہا کہ ان کا تمام لوگوں کو پیغام ہے کہ وہ خاموش نہ رہیں اور افغان خواتین کے ساتھ کھڑے رہیں، ان کی تعلیم اور کام کے حقوق کے لیے آواز بلند کریں۔
نوبیل انعام یافتہ ملالہ کے مطابق افغانستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں لڑکیاں تعلیم کے حق سے محروم ہیں۔ جب ہم تعلیم کی بات کرتے ہیں تو ہمیں افغان لڑکیوں کی تعلیم کے حق کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے۔ اگر افغان خواتین تعلیم سے محروم ہیں تو اس سے نہ صرف انہیں نقصان پہنچتا ہے بلکہ افغانستان کی معیشت، امن اور خوش حالی کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔
ملالہ نے افغان خواتین کو پیغام دیا کہ وہ اپنی افغان بہنوں کے ساتھ کھڑی ہیں اور ان کی ہمت کو سلام پیش کرتی ہیں۔انہیں امید ہے کہ افغان خواتین کو تعلیم، روزگار اور سیاسی شرکت کا حق مل جائے گا۔